خبر آئی ہے کہ پاکستان میں سیاسی کشمکش کم کرنے کیلئے لندن میں بھی ٹریک ٹو مذاکرات جاری ہیںٹریک ٹو ڈائیلاگ کی اصطلاح عام طور پر میڈیا اور عوام سے اوجھل بند کمروں میں ہونے والے مذاکرات کیلئے استعمال ہوتی ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ نمود و نمائش کے بغیر غیر محسوس طریقے سے ایک ایسی سرگرمی شروع کی جائے جو کسی نتیجے پر پہنچ سکے اور اس سرگرمی کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں وہ افراد شامل ہوں گے جو میڈیا کے سامنے نہیں آتے جب ایسے ڈائیلاگ ہوں گے جو نظر نہیں آرہے ہوں تو اس میں وہی لوگ شامل ہوتے ہیں جو ملک و قوم کا درد رکھتے ہیں اور جو عوام کے مسائل کو حل کرنا چاہتے ہیں ۔وطن عزیز میںایک طرف حکومت سے باہر کی گیارہ جماعتیں خم ٹھونک کر میدان میں اتری ہیں اسلام آباد تک لانگ مارچ، دھرنے اور اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے اعلانات کر رہی ہیں تو دوسری طرف حکومت کی حلیف جماعت ایم کیو ایم اور اے بی پی نے بھی لوہا گرم دیکھ کر حکومت پر وار کرنا شروع کردیا ہے۔ اس ماحول کو ایک دن میں ختم نہیں کیا جاسکتا، ایسے مرحلے پر ایک غیر محسوس اور پر خلوص سرگرمی نتیجہ خیز ثابت ہوسکتی ہے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ٹریک ٹو ڈائیلاگ سے وہ استعفے جو جنوری میں آنے ہیں، وہ موخر ہوجائیں گے، سینیٹ کے الیکشن بھی مقررہ شیڈول کے مطابق ہوں گے اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کی خالی نشستوں پر انتخابات بھی ہوں گے اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی دوبڑی سیاسی جماعتیں ضمنی انتخابات میں حصہ لیں گی۔پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری نے میاں نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان پر واضح کردیا ہے کہ ان کی جماعت سینٹ اور ضمنی انتخابات میں میدان خالی نہیں چھوڑے گی۔ مسلم لیگ کی مقامی قیادت بھی ضمنی انتخابات اور سینٹ الیکشن میں حصہ لینے کی حامی ہے تاہم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی نے فیصلہ مولانا پر چھوڑ دیا ہے۔دوسری جانب وفاقی وزراءکا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے استعفوں کے بعد خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کرائے جائیں گے اور سینٹ میں بھی اکثریت حاصل ہونے کی صورت میں حکومت کے لئے قانون سازی میں آسانی ہوگی اور اسے آرڈیننسوں کا سہارا نہیں لینا پڑے گا۔اس میں دو رائے نہیں کہ محاذ آرائی ، دھینگامشتی، مارکٹائی اور خون خرابے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ جانی و مالی نقصانات کے بعد حتمی فیصلوں کے لئے مذاکرات کی میز پر آنا پڑتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو چاہئے کہ قومی مفاد کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے گفت و شنید کا راستہ اپنائیں۔ اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کا مقصد اگر مہنگائی اور بے روزگاری جیسے عوامی مسائل کو حل کرنا ہے تو یہ کام صرف مذاکرات سے نکل سکتا ہے اگر اس کا مقصد حکومت کادھڑن تختہ کرنا اور اپنے اقتدار کی راہ ہموارکرنا ہے تو ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں آنے والا۔ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں نے سینٹ اور ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دو جنوری کو پی ڈی ایم کے سربراہ اجلاس میں اس حوالے سے حتمی فیصلہ ہوگا۔مولانا فضل الرحمان اور اپوزیشن اتحاد میں شامل دیگر جماعتوں کو بھی قومی مفاد میں مفاہمت اور بات چیت کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ تاکہ ملک کو کسی ممکنہ انتشارسے بچایا جاسکے۔ ذاتی مفادات کے لئے نورا کشتی سے اس ملک کے عوام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ہماری شرح خواندگی 40 فیصد ہے‘60فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پر زندگی گزار رہے ہیں زرعی ملک ، وافر پانی کے ذخائر، زرخیز زمین اور سازگار موسم کے باوجود ہم 80فیصد زرعی اجناس باہر سے منگواتے ہیں پچاس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی گنجائش ہونے کے باوجود آج بھی ملک بھر میں آٹھ سے دس گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہورہی ہے۔سیاسی جماعتوں کو عوامی نمائندگی کا حق ادا کرتے ہوئے قوم کے مسائل حل کرنے کے لئے مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا چاہئے۔