طب کی تعلیم و سندیافتہ افراد کے امور سے متعلق نئے بندوبست (پاکستان میڈیکل کمیشن) کے بارے میں متعلقہ طلبا ءو طالبات (بشمول والدین و سرپرستوں)‘ ڈاکٹروں‘ ماہرین تعلیم اور باالخصوص سندھ حکومت کی جانب سے تحفظات کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے۔ اِس سلسلے میں غیرمعمولی پیشرفت ”سندھ کابینہ‘ ‘کا یہ فیصلہ (چوبیس دسمبر) سامنے آیا ہے کہ ”صوبائی سطح پر‘ ‘سندھ میڈیکل کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے۔ سندھ اعتراضات اور تحفظات ”میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمشن ٹیسٹ (MDCAT)‘ ‘سے متعلق ہیں‘ جن کی بارہا نشاندہی کرنے کے باوجود وفاقی نگران ادارے ”پی ایم سی‘ ‘کی سردمہری کا جواب اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت ملنے والے اختیارات کو استعمال کرنے کی صورت میں دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے یعنی آئندہ سندھ حکومت میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجوں میں داخلوں کی اہلیت طے کرنے کے لئے صوبائی سطح پر (اپنی زیرنگرانی) امتحان کا انعقاد کرے گی اور اِس سلسلے میں ’پی ایم سی‘ کی طرز پر صوبائی ادارہ ’سندھ میڈیکل کمیشن تشکیل دیا جائے گا۔ سندھ کابینہ کے فیصلے کے مطابق ’ایس ایم سی‘ صرف اہلیت جانچنے کے امتحانات ہی نہیں بلکہ دیگر معاملات بھی اپنے ہاتھ میں لے گا جیسا کہ نجی میڈیکل جامعات اور کالجوں کے مطابق بشمول طب کی تعلیم کی سالانہ فیس کا تعین بھی سندھ کی صوبائی حکومت کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔ اُنتیس نومبر دوہزار بیس کے روز لئے گئے ’میڈیکل کالج انٹری ٹیسٹ سے متعلق سندھ حکومت کے شدید تحفظات ہیں جنہیں تفصیل سے صوبائی کابینہ اجلاس میں زیرغور لایا گیا اور اِس موقع پر صوبائی محکمہ¿ صحت کی جانب سے کابینہ اراکین کے لئے بریفنگ کا انتظام بھی کیا گیا‘ جس میں پیش کردہ اعدادوشمار میں کہا گیا کہ ”ایم ڈی کیٹ“ میں 30 سوالات ایسے تھے جن کا تعلق سندھ میں پڑھائے جانے والے انٹرمیڈیٹ کے نصاب تعلیم سے نہیں تھا۔ دوسرا اعتراض یہ سامنے آیا کہ 1لاکھ 27 ہزار کے قریب نتائج ’پی ایم سی‘ کی ویب سائٹ پر جاری کئے گئے جو نامکمل تھے۔ سندھ حکومت اِس بات سے بھی خوش نہیں ہے کہ اُس کے جن 25ہزار 252 طلبہ نے ’ایم ڈی کیٹ‘ (امتحان) دیا ہے اُس میں سے صرف ’8 ہزار 287 طلبہ ہی کامیاب قرار دیئے گئے ہیں اور اِس غیرمعمولی تعداد میں سندھ کے طلبہ کے ناکام ہونے کی وجہ ’آو¿ٹ آف کورس‘ امتحانی پرچے کو قرار دیا جا رہا ہے۔ سندھ میڈیکل کمیشن کے قیام کا فیصلہ وفاقی ادارے ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘کے قیام سے قبل کرلیا گیا تھا اور اِس سلسلے میں متعلقہ ضروری قانون سازی بھی کر لی گئی تھی لیکن قومی اسمبلی سے ’پی ایم سی‘ کا قانون منظور و لاگو ہونے کے بعد سے یہ عمل اِس اُمید پر روک دیا گیا تھا کہ نیا تشکیل دیا گیا وفاقی ادارہ سندھ حکومت کے مو¿قف کو خاطرخواہ توجہ دے گاتاہم سندھ کو’پی ایم سی‘ کے اقدامات اور طریقہ¿ کار سے شدید اختلافات ہیں۔دوسری جانب خیبرپختونخوا حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ تعلیمی سال 2020-21ءکے دوران صوبے کے نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجوں میں 90 فیصد نشستیں مقامی اور 10فیصد نشستیں غیرمقامی (دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے) طلبہ کے لئے مختص ہوں گی۔ یہ فیصلہ خیبرپختونخوا کابینہ اجلاس میں کئے گئے فیصلوں کی روشنی میں کیا گیا ہے جس کے لئے ”پاکستان میڈیکل کمیشن‘ ‘سے مشاورت بھی کی گئی اور وفاقی ادارے کی منظوری سے خیبرپختونخوا میں دیگر صوبوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کو میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز میں داخلے دیئے جائیں گے۔ قابل ذکر ہے کہ وفاقی حکومت کی بنائی داخلہ پالیسی میں مقامی اور غیرمقامی جیسے امتیازات کا ذکر نہیں اِس شق کی رو سے میڈیکل و ڈینٹل کالجز کے طلبہ کسی بھی صوبے میں داخلہ حاصل کرنے کے لئے درخواست دے سکتے ہیں اور اُن پر ’ڈومیسائل کی شرط‘ کا اطلاق نہیں ہوگا یہ بات کسی المیے سے کم نہیںکہ پاکستان کے چاروں صوبوں میں الگ الگ قسم کے تعلیمی معیارات ہیں بلکہ مختلف نصاب تعلیم اور تعلیمی اِداروں میں سہولیات کے مختلف انداز متقاضی ہیں کہ ہر صوبے میں اہلیت کا اپنا معیار مقرر کیا جائے۔ یہ بات پہلے ہی ناانصافی ہے کہ سرکاری سکولوں اور کالجوں کے مقابلے نجی ادارے بہتر درسی و تدریسی اور ہم نصابی سرگرمیوں کی صورت سہولیات فراہم کر رہے ہیں جبکہ حکومت تعلیم پر نجی شعبے سے زیادہ اخراجات کے باوجود بھی بلند معیار کو حاصل نہیں کر پا رہی۔ بغور دیکھا جائے تو اِس سے زیادہ ظالمانہ مذاق کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا ہے کہ نہ صرف ایک ہی ملک میں مختلف قسم کے نصاب تعلیم رائج ہیں بلکہ معیاری تعلیم پر صرف اُنہی طبقات کا حق تسلیم کر لیا گیا ہے جو ایک خاص قیمت ادا کر سکتے ہیں۔سندھ حکومت کی ’خاطر شکنی‘ اپنی جگہ لیکن طب کی تعلیم حاصل کرنے والوں کی ’دل شکنی‘ بھی پُرمعنی (غیرمعمولی اہمیت) رکھتی ہے جس کے بارے میں بحث و مباحثہ (غوروخوض) یا زیادہ تجزیہ کاری نہیں کی جاتی۔ المیہ ہے کہ طب کی تعلیم کو صوبائی تعصبات اور صوبائی حقوق کی تلفی کی صورت دیکھا جا رہا ہے حالانکہ یہ قومی معاملہ ہے اور اِس بارے میں جو بھی فیصلہ ہونا چاہئے وہ چاروں صوبوں کی مشاورت و رضامندی اور مو¿قف پر مبنی ہو تو اِس سے طب کی بنیادی و اعلیٰ (خصوصی) تعلیم کے شعبوں میں بہتری آئے گی بصورت دیگر اگر طب کی تعلیم کے الگ الگ صوبائی معیارات مقرر کئے گئے تو یہ طب کی خدمت سے زیادہ اِس سے دشمنی کے مترادف عمل ہوگا۔