سرکاری سکول ،مزید اقدامات کی ضرورت

اس وقت صوبہ بھرمیں ہزاروں سرکاری سکول موجود ہےں اورلاکھوں اساتذہ ان میں پڑھارہے ہیں لیکن اگر سروے کرایا جائے تویہ تلخ حقیقت سامنے آئے گی کہ ان میں سے اکثراساتذہ کرام کے بچے اس وقت نجی سکولو ں میں زیر تعلیم ہیں جویقینا محکمہ تعلیم کےلئے لمحہ فکریہ ہوناچاہئے کچھ عرصہ سے سرکاری اورغیر سرکاری سکولوں کے نصاب کے حوالہ سے کافی بحث چلی ہوئی ہے ماضی میں اس معاملہ کوہمیشہ انتہائی ثانوی اہمیت دی گئی جسکی وجہ سے نصاب پر نظرثانی ہوسکی نہ ہی کوئی بہتری لائی جاسکی بلکہ الٹاکچھ ایسی تبدیلیاں لائی جاتی رہیں جن کی وجہ سے بچے دین ،روایات اوراپنی تاریخ سے نابلد ہوتے چلے گئے ‘تحریک انصاف کی پہلی اوراب موجودہ صوبائی حکومت نے اس حوالہ سے کام شروع کیا اورپھر وزیر اعظم عمران خان نے تو تمام سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں کےلئے یکساں نصاب کے حوالے سے کام شروع کرواکر اس جمودکو توڑنے کی کامیاب کوششیں کیں دوسری طرف وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے سرکاری سکولوں کے تدریسی نصاب میں حضور نبی کریم کی سوانح حیات کے حوالے سے جامع مضامین شامل کرنے کی ہدایت کی ہے تاکہ طلباءو طالبات محسن انسانیت کی سیرت طیبہ سے صحیح معنوں میں روشناس ہوسکیں۔ انہوں نے سرکاری سکولوں میں ضرورت کی بنیاد پر ڈبل شفٹ شروع کرنے کے حوالے سے درپیش مسائل فوری حل کرنے اور اس مقصد کےلئے سمری کابینہ کے اجلاس میں پیش کرنے کی بھی ہدایت کی ہے ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کی کہ سکول چھوڑنے کی شرح مزید کم کرنے کےلئے واضح اہداف کا تعین کیا جائے۔ وزیر اعلیٰ محمود خان نے نبی کریم کی سوانح حیات کو نصاب میں شامل کرکے ایک احسن اقدام کیا ہے اس سے صاف عیاں ہوتا ہے کہ وہ مذہبی اقدار ، تعلیمات اور نبی کریم کی سوانح حیات سے زیادہ سے زیادہ طلباءوطالبات کو روشناس کرنا چاہتے ہیں اس سلسلہ میں انہیں وزیر اعظم عمران خان سے مل کر نجی سکولوں کے نصاب میں بھی نبی کریم کے بارے میں مضامین شامل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے یہ اسلئے بھی زیادہ ضروری ہے کہ ہمارے ملک میں نجی تعلیمی ادارے ہزاروں کی تعداد میں ہیں اور ان میں لاکھوں بچے پڑھتے ہیں پاکستان میں نجی سکولوں کے نصاب میں بعض ایسا مواد شامل ہے جس پر اعتراضات کئے جا سکتے ہیں اور اخبارات میں اس حوالہ سے خبریں بھی شائع ہوتی رہی ہیں سرکاری و غیر سرکاری سکولوں کے نصاب پر کڑی نگرانی کی اشد ضرورت ہے گو اس سلسلہ میں کیری کولم ونگ موجود ہے لیکن سچ یہ ہے کہ اس کی کارکردگی اطمینان بخش نہیں ہے ۔ وزیراعظم پورے ملک میں ایک نصاب تعلیم رائج کرنا چاہتے ہیں ، ہمارے نزدیک اگر ایسا ہوجاتا ہے تو اس سے طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ ہوجائےگا اور امیرو غریب طلباءطالبات کے مابین حائل خلیج بھی نہیں رہےگی اس سلسلہ میں وزیر اعظم کو اپوزیشن ، تعلیمی ماہرین اور جید علماءکرام سے مشاورت کرنی چاہئے تاکہ بعد میں کسی کو ایک نصاب پر تنقید کرنے کا موقع نہ مل سکے۔سرکاری سکولوں میں ڈبل شفٹ شروع کرنا وقت کی ایک اہم ضرورت ہے اس سے ان ہزاروں لاکھوں طلباءکا تعلیمی مستقبل محفوظ ہوجائیگا اور تعلیم کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ عین ممکن ہوگا،صوبائی حکومت نے سرکاری سکولوں کے تعلیمی معیار کو پہلے سے کہیں زیادہ بہتر بنایا ہے جسکے نتیجہ میں سرکاری سکولوں میں طلباءو طالبات کے سکول چھوڑنے کی شرح میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے تاہم حکومت کوصرف اس پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ سرکاری سکولوں کے معیار کے ساتھ ساتھ ان کے اساتذہ کی استعداد کار اور تربیت پر بھی خصوصی توجہ دینا ہوگی اور اساتذہ اور طلباءوطالبات کی سکولوں میں حاضری بہتر کرنےکی حکمت عملی بھی وضع کرنا ہوگی سرکاری سکولوں میں لیڈیز ، پینے کا صاف پانی ، فرنیچر،پنکھوںکی فراہمی اور طلباءوطالبات کےلئے لائبریری کی سہولت اور انکی کردار سازی پر بھی زور دینے کی اشد ضرورت ہے۔ طلباءوطالبات کوہمارے اسلاف کی قربانیوں، ملک وقوم کے حوالہ سے ان کی شاندار خدمات اور خدمت خلق کے جذبہ سے روشناس کرانا از بس ضروری امور ہیں ان پر اگر خصوصی توجہ دی جائے تو والدین کو نجی سکولوں میں بچوں کو داخل نہیں کرنا پڑےگااور وہ نجی سکولوں کے بھاری بھرکم فیسوں کی ادائیگی سے بچ سکیں گے، یہ بھی ایک تلخ اور ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سرکاری سکولوں پر والدین کا اعتماد بڑی حد تک متاثر ہواہے اور وہ اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو بہتر تعلیم کےلئے نجی سکولوں میں داخل کراتے ہیں ایک وقت تھا کہ مڈل ، میٹرک کے امتحانات میں سرکاری سکولوں کے طلباءوطالبات ہی بورڈ امتحانات میں اعلیٰ پوزیشن لیتے تھے بد قسمتی سے آج اس کے برعکس ہے اس کی کیا وجوہات ہیں ان کا جاننا حکومت کی ذمہ داری ہے نقل کے رجحان کو ختم کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے ، اس سے قابل اور محنتی طلباءوطالبات کو نقصان ہوتا ہے اور نالائق پیسے خرچ کرکے ان سے زیادہ نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ زیادہ تر لائق طلباءمایوس ہوکر آگے بڑھنے سے انکار کر دیتے ہیں نقل کی روک تھام پر حکومت اور متعلقہ اداروں کو سخت اور موثر اقدامات کرنا ہونگے ‘سرکاری سکولو ں پر لوگوں کے اعتماد کو مکمل طورپر بحال کرنے میں یقینا وقت تو لگے گا مگریہ ناممکن کام ہرگز نہیں صرف اساتذہ کرام کو اپنا اصل کرداربھرپورطریقے سے ادا کرناہوگا ساتھ ہی حکومت بھی سرکاری سکولوں کی تعداد میں اضافہ پر توجہ دے کہ فی کلاس مخصوص تعداد میں بچوں کی موجودگی یقینی بنائے بصورت دیگر اگر ایک ایک کلاس میں سوسے ڈیڑھ سو تک بچے پڑھ رہے ہونگے تو اساتذہ کےلئے بھی سب پر توجہ دینا مشکل ہوگا دوسری طرف محکمہ تعلیم کے افسران کو بھی دفاتر سے نکل کر مسلسل اوراچانک دوروں کو معمول بناناچاہئے محض اجلاسوں اوربریفنگز سے کارکردگی بہتر نہیں بنائی جاسکتی سب سے اہم چیز سزا و جزا کے اصول کو عملی صورت دیناہے تبھی حوصلہ افزاءنتائج کی امید رکھی جاسکتی ہے ۔