درپیش حالات‘ صورت ِحالات

انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے تحفظ کی غیرسرکاری تنظیموں میں قدر مشترک یہ ہے کہ وہ پاکستان میں ہونے والی ہر سماجی بُرائی (خرابی) یا آئینی سقم کو مذہب سے جوڑ دیتے ہیں اور پاکستان کے بارے میں ایک ایسی رائے قائم کی جاتی ہے کہ جیسے (خدانخواستہ) یہاں دیگر مذاہب (اقلیتوں) کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی یا اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرنے کی آزادی حاصل نہیں جبکہ صورتحال یکسر مختلف ہے اور جن چند ایک واقعات کو ’ڈھال‘ بنا کر پاکستان پر وار کیا جاتا ہے اگر اُن کی تفصیلات کودیکھا جائے تو حالات اور صورت حال بخوبی واضح ہو جاتی ہے جبکہ پاکستان پر کیچڑ اچھالنے میں ’پیش پیش تنظیموں‘ کے ’درپردہ مقاصد‘ بھی عیاں ہو جاتے ہیں کہ ملکی و غیرملکی ذرائع سے عطیات وصول کرنے والے کس طرح پاکستان کو بدنام کرنے میں ’پیش پیش‘ رہتے ہیں۔ حکومت نے بہت ساری دیگر وجوہات کے علاوہ اِس لئے بھی غیرسرکاری تنظیموں (این جی اُوز) کے تنظیمی و مالی معاملات و امور دستاویزی بنانے کے عمل کا آغاز کر رکھا ہے کیونکہ میڈیا اور سوشل میڈیا کے زمانے میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کو عنوان بناکر چند افراد کے مظاہرے کو پوری دنیا میں کچھ اِس طرح اُچھالا جاتا ہے کہ اِس سے سوائے پاکستان کی بدنامی کچھ حاصل نہ ہو۔انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے تحفظ جیسے بظاہر مقاصد و عزائم رکھنے والوں کے ہاتھ اِن دنوں ’کم عمری کی شادیاں‘ آئی ہوئی ہیں‘ جنہیں روکنے کے مطالبے اور اِس سلسلے میں موجودہ آئین میں حسب خواہش ترمیم کے لئے ’این جی اوز‘ کے پاس مغربی ممالک کی لاتعداد مثالیں موجود ہیں لیکن وہ اِس بارے مغربی نکتہ¿ نظر کو اسلامی نکتہ¿ نظر پر ترجیح دیتے ہیں۔ یہ دونوں نکات اپنی اپنی جگہ اہم اور اپنے اپنے تہذیبی و ثقافتی انداز سے زندگی بسر کرنے کے لئے وضع کئے گئے ہیں‘ جنہیں ایک دوسرے سے موازنہ کر کے نہیں دیکھنا چاہئے اور یہی وہ غلطی ہے کہ پاکستان میں رہنے والوں کی اکثریت کے مذہب و ثقافت کو پس پشت ڈال کر دیکھا جاتا ہے حالانکہ دنیا کے ہر ملک اور قوم کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس مذہبی یا تہذیبی و ثقافتی تمدن کے ساتھ زندگی بسر کرنا چاہے اُسے حق حاصل ہے لیکن کسی دوسرے کی تہذیب و ثقافت یا مذہب میں مداخلت کا حق نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی جو چیز مغربی ممالک کے لئے درست ہے وہ من و عن مشرقی و عرب دنیا کے لئے بھی موزوں قرار دی جا سکتی ہے۔ اِس سلسلے میں پاکستان کے قومی و مفکر شاعر ڈاکٹر علامہ اقبالؒ (پیدائش 9 نومبر 1877ء(سیالکوٹ) وفات 21 اپریل 1938ء(لاہور)) کے پیش کردہ ایک تصور دعوت فکروعمل ہے ”اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر .... خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)۔”قوانین اور زمینی حقائق (تاریخ اِشاعت 29 دسمبر)“ کے تحت ’کم عمری کی شادیوں‘ سے متعلق منظرنامہ پیش کرتے ہوئے خیبرپختونخوا میں پیش آئے ایک وقوعے کا ذکر کیا تاکہ اِس متعلق آئینی تشریح و سقم بھی بیان ہو جائیں۔ کم عمری کی شادی کے واقعات صرف خیبرپختونخوا ہی میں رونما نہیں ہو رہے بلکہ یہ ملک کے دیگر حصوں سے بھی رپورٹ ہو رہے ہیں اور ایک ایسی صورت میں عالمی ذرائع ابلاغ و سوشل میڈیا صارفین کی توجہ کا زیادہ مرکز بنتے ہیں جب اِن کا تعلق ’مذہب کی تبدیلی‘ سے بھی جوڑ دیا جاتا ہے ۔ اِس سلسلے میں صوبہ سندھ کے وسطی علاقوں کی پسماندگی و سماجی حالات کو مدنظر نہیں رکھا جاتا‘ جہاں خواندگی اور بنیادی سہولیات کا شدید فقدان ہے اور اِس کمی کے لئے ذمہ دار وہ سیاسی جماعتیں ہیں جو سندھ کو مل بانٹ کر کھا رہی ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی لوٹ مار کو کبھی بھی اِس قسم کے رونما ہونے والے واقعات کے ساتھ جوڑ کر نہیں دیکھا جاتا۔ حالیہ چند برس کے دوران کم عمری کی شادی اور مذہب کی تبدیلی کے واقعات کو فہرست کیا جائے تو سہ بہ سال سامنے آنے والے زیادہ تر واقعات سندھ میں پیش آئے‘ جہاں کی تاریخ و ثقافت اور رہن سہن ایساہے کہ مسلمان اور دیگر اقلیتیں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر زندگی بسر کرتے ہیں اور سماجی و ثقافتی تعلقات اِس قدر گہرے‘ پرانے اور تاریخی ہیں کہ مذاہب کے پیروکار ایک دوسرے کی مذہبی شناخت کو جاننے کے باوجود بھی اِسے امتیاز نہیں سمجھتے۔ پاکستان پر اعتراض کرنے والوںکو سندھ کے سماج کا یہ رخ بھی پیش کرنا چاہئے جہاں پر ہندوو¿ں اور دیگر اقلیتیں قیام پاکستان سے قبل آباد ہیں اور اُنہوں نے قیام پاکستان کے موقع پر‘ جبکہ وہ بھارت جا سکتے تھے لیکن پاکستان ہی میں رہنے کو ترجیح دی کیونکہ اُنہیں مسلمانوں اور مسلمانوں کو اُن سے کوئی خطرہ نہیں تھا۔ اگر خطرہ یا نفرت و امتیاز موجود ہوتا تو ستر سال کے سفر میں پاکستان سے اقلیتوں کا وجود ختم ہو چکا ہوتا۔ کسی ایک خبر کے دیگر ایسے زاویئے بھی ہوتے ہیں‘ جو یکساں اہمیت رکھتے ہیں اور اگر اُن سے متعلق زیادہ نہیں تو کم ہی سہی لیکن غوروخوض ضرور ہونا چاہئے۔