تجرباتی فیصلے و نتائج

ایم ڈی کیٹ کے نظرثانی شدہ نتائج کا اعلان مرحلہ وار انداز سے کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ اُنتیس دسمبر سے شروع ہونے والا یہ عمل اُمید ہے کہ (حسب اعلان) اکتیس دسمبر تک مکمل ہو جائے گا تاہم جن طلبہ کے نظرثانی شدہ نتائج پہلے مرحلے میں جاری نہیں ہوئی اُن کی پریشانی سمجھی جا سکتی ہے المیہ ہے کہ یہی فیصلہ ساز بنا انٹری (ایم ڈی کیٹ) ٹیسٹ اور بنا پے در پے امتحانات اِس مقام (منصب عالیہ) تک پہنچے ہیں تو دوسروں کے بارے بدگمانی کا شکار کیوں ہیں کہ اُن کی اہلیت ماضی کے امتحانی نظام سے معلوم نہیں کی جا سکتی؟پاکستان میں طب کی تعلیم کا معیار کسی اضافی تعارف کا محتاج نہیں۔ میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں داخلہ ملنے کے باوجود بھی اکثر طلبہ کی اہلیت بارے غلط فیصلے اُس وقت سامنے آتے ہیں جب پانچ سالہ تعلیم کے ادوار میں طلبہ کسی ایک یا مختلف مضامین کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ طب کی تعلیم کا موجودہ نظام انٹرمیڈیٹ کی بجائے میٹرک کے بعد شروع کرنے اور اِسے پانچ کی بجائے سات سال دورانیئے پر محیط کرنے نیز پے در پے امتحانات کی بجائے اہلیت جانچنے کے لئے کسی ایک ’قومی معیار‘ کا تعین کرنے کی اصلاحات توجہ طلب ہیں۔پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے اعلانات ٹوئیٹر اکاو¿نٹ (@PMC_ORG) سے جاری کئے جاتے ہیں تاہم نتائج کے اعلان کےلئے ویب سائٹ (pmc.org.pk) پر ضمیمہ بھی جاری کیا گیا ہے جہاں طلبہ اپنے رول نمبر کے ذریعے نظرثانی شدہ نتیجہ معلوم کر سکتے ہیں جبکہ یہی کام زیادہ تیز رفتاری‘ سہولت اور رازداری کے ساتھ بذریعہ مختصر پیغامات (ایس ایم ایس) بھی ممکن تھا۔ ’ایم ڈی کیٹ‘ کا امتحان دو مراحل میں انجام پایا۔ پہلے مرحلے میں (29نومبر کے روز) اُن طلبہ کا امتحان لیا گیا جو کورونا وبا سے متاثر نہیں تھے اور دوسرے مرحلے (13دسمبر) اُن طلبہ کا امتحان لیا گیا جو کورونا وبا سے متاثر تھے یا جن میں کورونا وبا کی ظاہری علامات کے سبب پہلے مرحلے کے امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیںدی گئی۔ مذکورہ دونوں مراحل کے نتائج کااعلان 16 دسمبر کے روز کیا گیا تھا جس کے بعد سے ملک گیر احتجاج دیکھنے میں آیا اور فیصلہ سازوں کو نظرثانی شدہ نتائج مرتب کرنے میں 29 دسمبر تک کا وقت لگا جبکہ مکمل نتائج 31 دسمبر تک متوقع ہیں۔ غور کیا جائے تو 29نومبر سے شروع اور 31 دسمبر ممکنہ طور پر مکمل ہونے والے اِس پورے امتحانی عمل میں ایک ماہ سے زیادہ کا وقت خرچ ہو چکا ہے۔ نظرثانی نتائج جاری کرنے سے قبل ’پی ایم سی‘ کوملنے والی شکایات میں صرف 2 فیصد تکنیکی خرابیوں سے متعلق تھیں یعنی صرف 2 فیصد اُمیدواروں کی وجہ سے پورے نتائج پر نظرثانی کی گئی۔ طب (میڈیکل اور ڈینٹل) کی تعلیم اِس قدر مشکل نہیں جس قدر داخلے کے مراحل میں اہلیت جانچنے کا نظام (ایم ڈی کیٹ) اُور ٹیکنالوجی کا انتہائی غیرذمہ دارانہ استعمال کیا گیا ہے۔ ’پی ایم سی‘ سے توقع ہے کہ وہ پاکستان میں طب کی تعلیم کے سرکاری اداروں میں نشستوں کی تعداد میں اضافہ کرے گی۔ نجی میڈیکل کالجوں کی جانب سے مقررہ فیسوں کے علاوہ لئے جانے والے عطیات کی روک تھام کرے گی۔ طب کی تعلیم کو سستا‘ معیاری اور آسان بنانے کےلئے غیرملکی تعلیمی اداروں سے الحاق کیا جائے گا اور سب سے بڑھ کر ’پی ایم سی‘ فیصلے متنازعہ نہیں ہوں گے کہ اِن سے صوبائی خودمختاری میں مداخلت کا تاثر ملے طب کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند شش و پنج میں مبتلا ہیں‘ جن کےلئے کوئی بھی ایسا بندوبست قابل قبول نہیں ہوسکتا جو مسلط کیا جائے اور جس کا منطقی طور پر جواز یا سمجھ نہ آئے۔