سالنامہ: کورونا‘ بھاری قیمت

اِیبٹ آباد کے رہنے والے ’کورونا وبا‘ سے احتیاط نہ کرنے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں جس کی وجہ سے سرکاری و نجی ہسپتال گنجائش سے زیادہ مریضوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں جبکہ علاج معالجے نصیب ہونے سے قبل اموات کا شمار ممکن نہیں رہا۔ متاثرین کی تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے طبی ماہرین اِس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہزارہ ڈویژن کے صدر مقام ’ضلع ایبٹ آباد‘ میں کوورنا وبا پھیلنے کی 2 بنیادی وجوہات ہیں۔ نمبر ایک پبلک ٹرانسپورٹ اور نمبر دو تعلیمی ادارے کیونکہ متاثرین کی اکثریت بلواسطہ یا بلاواسطہ ایسے افراد سے تعلق میں رہی جنہوں نے پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کیا یا پھر وہ تعلیمی اداروں میں ملازمتیں کرتے تھے‘ جہاں کورونا ’ایس او پیز‘ کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی جبکہ کورونا وبا کے پہلے دور (مارچ سے ستمبر دوہزار بیس) کے مقابلے دوسرا دور (ماہ¿ اکتوبر سے تاحال جاری) میں موسمی شدت کا بھی عمل دخل ہے۔ رواں برس شدت کے ساتھ خشک (یعنی بنا بارش) سردی کی لہر نے رہی سہی کسر نکال دی۔یوں تو تعلیمی ادارے (سکول‘ کالج‘ جامعات اور مدارس) ہر شہر میں ہوتے ہیں لیکن ’تعلیمی اداروں کا شہر‘ کہلانے والے ایبٹ آباد کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں پورے ملک سے آنے والے طلبا و طالبات تعلیمی اداروں میں فراہم کردہ قیام گاہوں (ہاسٹلز) کی سہولیات سے استفادہ کرتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایبٹ آباد کی معیشت کا ساٹھ فیصد سے زائد کاروباری دارومدار یہاں کے عالمی سطح پر معروف تعلیمی اداروں پر ہے جہاں ہر نئے تعلیمی سال میں داخلے کےلئے خواہشمندوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ امن و امان کی نسبتاً بہتر صورتحال اور پرفضا پہاڑی و سیاحتی علاقوں کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے ایبٹ آباد درس و تدریس کےلئے انتہائی موافق سمجھاجاتا ہے کیونکہ یہاں سارا سال (موسم گرما کے دوران بھی) تعلیمی عمل جاری رہتا ہے جبکہ موسم سرما سے قبل تعلیمی سال مکمل ہونے کی وجہ سے تعلیم کا حرج نہیں ہوتا لیکن ’ایبٹ آباد‘ کو سرکاری طور پر ’تعلیمی اداروں‘ کا شہر قرار نہیں دیا گیا اور نہ ہی یہاں کے موسم‘ وسائل اور شہرت جیسی خوبیوں کو خاطرخواہ اہمیت دی گئی۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہاں کی شہری آبادی کے عین وسط میں ’صنعتی علاقہ (انڈسٹریل زون)‘ نہ بنایا گیا ہوتا جہاں اکثریت فضائی و زمینی ماحولیاتی تنوع کو نقصان پہنانے والی ماربل فیکٹریوں کی بہتات صرف صنعتی بستی ہی کی حدود میں نہیں بلکہ اِس کے باہر بھی بہتات ہے اور خیبرپختونخوا کے کسی بھی دوسرے شہر کی طرح یہاں بے ہنگم تعمیرات و تجاوزات کی کہانی گلی گلی اور سڑک سڑک پھیلی دکھائی دیتی ہے۔چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا حصہ‘ ایبٹ آباد ہزارہ ڈویژن اور دیگر اضلاع بشمول گلگت بلتستان کے سیاحتی مقامات تک رسائی کرنے والوں کےلئے خاص اہمیت رکھتا ہے کہ وہ اپنی سفری تھکان اُتارنے یا سستانے کے لئے یہاں پڑاو¿ کو ترجیح دیتے ہیں اور تازہ دم ہو کر باقی ماندہ سیاحتی سفر کا آغاز کرتے ہیں اٹھائیس دسمبر کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق چوبیس گھنٹوں کے دوران 15.95فیصد پازیٹو کسیز کے ساتھ ایبٹ آباد پہلے جبکہ آبادی کے لحاظ سے ملک کا بڑا‘ صنعتی و ساحلی شہر 14.81فیصد کے ساتھ دوسرے اور صوبہ سندھ ہی کا دوسرا بڑا شہر حیدر آباد 14.47فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا۔ چند دن قبل نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر نے نشاندہی کی اور خطرے سے آگاہ کیا کہ ایبٹ آباد میں کورونا وبا سے متاثرین کی تعداد ملک میں بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے جو ایک ہفتے کے دوران بالترتیب ’چالیس فیصد‘ اور ’سترہ فیصد‘ جیسی بلند رہی ہے۔ ایبٹ آباد کے مرکزی ہسپتال ”ایوب ٹیچنگ“ میں سال دوہزاربیس کے دس ماہ (فروری سے دسمبر) کے دوران 37ہزار 261 کورونا ٹیسٹ ہوئے جن میں سے 4 ہزار 526 مثبت آئے جبکہ ڈاکٹروں کے مطابق اِتنی ہی تعداد میں کورونا ٹیسٹ نجی اداروں سے بھی کروائے گئے جن کے اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں۔