ہوش کے ناخن۔۔۔۔

پاکستان میں طب کی تعلیم (میڈیکل اینڈ ڈینٹل ایجوکیشن) اور طب کے شعبے سے وابستہ افرادی قوت (معالجین و ماہرین) سے متعلق قواعد لاگو کرنے اور متعلقہ امور کےلئے نگران ادارے ’پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی)‘ کی کارکردگی پر صرف طلبا و طالبات‘ والدین و اساتذہ اور ماہرین ہی تنقید نہیں کر رہے بلکہ ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم ’پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے)‘ کی جانب سے بھی ’پی ایم سی‘ کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ’پی ایم اے‘ کا قیام 27 مارچ 1948ءمیں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے دست مبارک سے ڈھاکہ (سقوط کے بعد بنگلہ دیش) میں ہوا تھا اور پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن عالمی سطح پر ڈاکٹروں کی نمائندہ تنظیم (ورلڈ میڈیکل ایسوسی ایشن) کے بانی اراکین میں شامل ہے۔ اِس مختصر تعارف کو ذہن میں رکھتے ہوئے ’پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن‘ کے طب کی تعلیم اور علاج معالجے سے متعلق رائے کی اہمیت کو سمجھا جا سکتا ہے جو تحقیقی و ماہرانہ ہونے کے ساتھ اور فنی و تکنیکی پہلوو¿ں کا احاطہ بھی کرتی ہے۔پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کی جانب سے توجہ دلائی گئی ہے کہ پاکستان میں طب کی تعلیم اور ڈاکٹروں پر رحم کرتے ہوئے ’ہوش کے ناخن‘ لئے جائیں۔ اِس سلسلے میں بطور خاص مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی)‘ کو تحلیل کر کے ’پاکستان میڈیکل کمیشن (پی ایم سی)‘ کو تخلیق کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کی جائے اور ’پی ایم ڈی سی‘ کو بحال کیا جائے۔ اگر ’پی ایم ڈی سی‘ کے معاملات میں کسی بھی قسم کی خرابی ہے تو اُسے دور کرنا چاہئے لیکن بیک جنش قلم ’پی ایم ڈی سی‘ (فعال وفاقی ادارے) کو ختم کرنا غیرمنطقی ہے۔ پی ایم اے کی جانب سے تجویز کیا گیا ہے کہ ’پی ایم ڈی سی‘ بحالی کےلئے وفاقی حکومت کو صوبوں سے مشاورت کرنی چاہئے اور ایک اصلاح شدہ لائحہ عمل کے ساتھ ’پی ایم ڈی سی‘ کو بحال کر دیا جائے بصورت دیگر صوبائی حکومتیں اِس بات کا آئینی اختیار رکھتی ہیں کہ وہ اپنے اپنے صوبے میں الگ الگ ’صوبائی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسلز‘ تشکیل دیں جو طب کی تعلیم کے لئے اچھا نہیں ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ طب کی تعلیم پورے ملک میں ایک جیسا معیاری اور وفاقی رہے کہ یہی اِس کی ترقی و مستقبل کےلئے ضروری ہے۔پاکستان میڈیکل کمیشن کے قیام کا قانون ’16 ستمبر 2020ئ‘ کے روز ہوئے پارلیمان کے مشترک اجلاس میں منظور کیا گیا اور یہ سب کچھ اِس قدر غیرمتوقع تھا کہ طب کی تعلیم سے متعلق نجی ادارے‘ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اور متعلقہ امور کے ماہرین بھی حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ اُمید یہی تھی کہ حکومت قانون سازی جیسے انتہائی اقدام سے قبل اِس شعبے میں موجود خرابیوں سے متعلق جملہ فریقین کی تجاویز‘ آرا¿ اور بالخصوص تحفظات پر غور کرے گی اور انہیں خاطرخواہ اہمیت دی جائے گی لیکن ایسا کچھ بھی دیکھنے میں نہیں آیابرقی دور میں جبکہ معلومات مرتب کرنے اور معلومات (information science) کی بنیاد پر کسی نتیجے تک پہنچنے (data mining) کا عمل منٹوں میں مکمل کیا جا سکتا ہے لیکن انٹری ٹیسٹ (MDCAT) کے انعقاد‘ نتیجے کے اعلان‘ نتیجے پر نظرثانی‘ نتیجے کے ازسرنو اعلان‘ داخلہ ٹیسٹ کی تاریخوں اور مراحل کا اعلان اور اِن پر نظرثانی کرنے کے بعد دوسرا اعلان جاری کرنے پر قریب چھ ہفتوں (ڈیڑھ ماہ) کا وقت ضائع کر دیا گیا۔ نئے اعلان (دو جنوری دوہزاراکیس) کے مطابق خیبرپختونخوا کے تمام نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز میں نئے تعلیمی سال 2021ءکےلئے داخلوںکا عمل ’22جنوری 2021ئ‘ تک مکمل ہو جانا چاہئے۔ اِس سلسلے میں داخلہ فارم جمع کرانے کی آخری تاریخ 12 جنوری جبکہ حتمی میرٹ لسٹ آویزاں (جاری) کرنے کی حتمی تاریخ 22 جنوری مقرر کی گئی ہے۔ خیبرپختونخوا کےلئے داخلہ فارم خیبر میدیکل یونیورسٹی کی مرتب کردہ خصوصی ویب سائٹ http://kmuadmissions.pk سے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔شاعر جگر مراد آبادی نے کہا تھا ”اب تو یہ بھی نہیں رہا احساس .... درد ہوتا ہے یا نہیں ہوتا!“ توجہ طلب ہے کہ طب کی تعلیم سے زیادہ اِس میں داخلہ حاصل کرنے کا عمل (غیرضروری طور پر) پیچیدہ‘ ناقابل فہم حد تک مشکل اور ناقابل یقین حد تک مہنگا بنا دیا گیا ہے‘ جس میں نجی تعلیمی اِداروں سے تحصیل کرنے والوں کے لئے آسانیاں ہی آسانیاں جبکہ سرکاری (گورنمنٹ) اداروں سے تعلیم حاصل کرنے والوں کےلئے مشکلات ہی مشکلات ہیں حکومتی فیصلہ سازوں کےلئے اگر پورے ملک میں نصاب تعلیم ایک (یکساں) کرنا ممکن نہیں اور وہ تعلیمی نصاب کی اجزائے ترکیبی میں شامل طبقات و امتیازات جیسے مصالحہ جات کو الگ نہیں کر سکتے تو کم سے کم یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ اہلیت جانچنے کا معیار (ایم ڈی کیٹ) امتحان کی تیاری کےلئے ہر درخواست گزار کےلئے یکساں مواقع فراہم کئے جاتے۔ بنیادی‘ ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے مدارج میں مالی وسائل (قوت خرید) رکھنے والے حاوی رہتے ہیں‘ جو امتحانی عمل سے لیکر داخلے کے لوازمات تک ہر مرحلے میں کامیابی کے ساتھ جڑی قیمت ادا کر سکتے ہیں۔