بین المذاہب ہم آہنگی سے متعلق وزیراعظم کے معاون خصوصی اور ممتاز عالم دین حافظ محمد طاہر اشرفی نے کہاہے کہ ریاست مدینہ کی طرز کا نظام قائم کرنے کیلئے حقوق العباد کی ادائیگی ، انصاف بلاامتیازاحتساب اور قانون کا احترام ضروری ہے، ریاست مدینہ صرف حکومت نہیں بنا سکتی، معاشرے کے تمام طبقات کو اس کیلئے تعاون اوراپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہوگا۔ کرپشن ہمارے معاشرے کے ہر شعبے میں آ چکی ہے، مساجد کو کمیونٹی سینٹر بنانا ہوگا جہاں سے حقوق العباد کی ادائیگی کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ مدارس و مساجد قوم و ملک کی خدمت کر رہے ہیں ، مدارس و مساجد کی آزادی کو کوئی سلب نہیں کر نے جا رہا ہے ، مدارس کو وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک کرنا موجودہ حکومت کا کارنامہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع کرک میں ہندﺅوں کی عبادت گاہ پر حملے کا مقصد حکومت ، وطن عزیز اور اسلام کو بدنام کرنا تھا۔انہوں نے بلوچستان کے علاقہ مچھ میں کوئلے کی کان میں کام کرنے والے ہزارہ برادری کے گیارہ افراد کے قتل کو پاکستان دشمن قوتوں کی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی خفیہ ادارے عالمی دہشت گرد اور انتہا پسند تنظیموں کے ذریعے اسلامی دنیا بالخصوص پاکستان اور افغانستان میں بد امنی پھیلا رہے ہیں، عالمی برادری کو بھارت کی ان سازشوں اور ریاستی دہشت گردی کی کاروائیوں کا نوٹس لینا چاہئے۔ حافظ محمد طاہرکے سیاسی نظریات سے اختلاف ہر شہری کا حق ہے لیکن سچ بات جو بھی کہے اس کی تائید کرنی چاہئے۔ دین اسلام کا بھی یہی حکم ہے کہ برائی جہاں نظر آئے اسے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرو۔اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتے تو زبانی اسے برا کہو۔ یہ بھی ممکن نہیں تو دل سے اسے برا جانو ۔برائی سے نفرت کا اظہار بھی کمزور ایمان کی علامت ہے۔ ایک اور حدیث مبارکہ ہے کہ منافق کی تین نشانیاں ہیں۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔ان احادیث مبارکہ کے تناظر میں اگر ہم اپنے گریبانوں میں جھانک کر ٹھنڈے دل سے سوچیں تویہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم کمزور ایمان والوں کے درجے سے بھی نیچے گر چکے ہیں۔جس طرف آنکھ اٹھالیں برے کام کرنے والے ہرجگہ ہمیں نظر آتے ہیں انہیں روکنے کے بجائے ہم اس کے مددگار بن جاتے ہیں ۔ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ ایک شخص نے قومی امانت میں خیانت، رشوت خوری، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، منشیات کے کاروبار، جعل سازی ، غیر قانونی، غیراخلاقی اور غیر اسلامی طریقے سے دولت جمع کی ہے۔اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان کا تقاضا ہے کہ ایسے لوگوںسے ہم سماجی رابطے ، رشتے ناطے اور تعلق ختم کریں،لیکن وطن عزیز میں کرپشن سے دولت کے انبار لگانے والوں کو معتبر، عزت دار اور بااثر خیال کیاجاتا ہے المیہ یہ ہے کہ کرپشن، جھوٹ اور جعل سازی سے عالی شان بنگلے، جدید گاڑیوں کے بیڑے اور عیش و عشرت کی زندگی گذارنے والوں سے نفرت کرنے کے بجائے لوگ ان سے مرعوب ہوتے ہیں اور ان کی طرح ناجائز دولت کمانے کے لئے غیر قانونی ذرائع تلاش کرنے لگتے ہیں۔ ریاست مدینہ کی طرز کا معاشرہ قائم کرنے کا جب ہمارے حکمرانوں نے نعرہ لگایا تو ہر طرف ان کا مذاق اڑایاجارہا ہے۔ مدینہ کی ریاست کا مطلب ایک فلاحی معاشرے کا قیام ہے جس میں ہر فرد کو اپنے قومی فرائض اور ذمہ داریوںکا احساس ہو۔ اور ان ذمہ داریوں کو پوری دیانت داری اور ایمانداری سے ادا کرے۔ فلاحی معاشرے کا قیام صرف حکمرانوں کی ذمہ داری نہیں، معاشرے میں رہنے والے تمام افراد کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔مدینہ کی ریاست بھی ڈنڈے کے زور پر نہیں، اجتماعی حسن اخلاق، احساس ذمہ داری، دیانت داری اور ایمانداری کی بدولت قائم ہوئی تھی۔یہ خصوصیات جس معاشرے میں پیدا ہوجائیں وہ فلاحی ریاست بن جائے گا۔اہل مغرب نے اسلام کی تعلیمات کو اپنایا آج وہ خوشحال ہیں ہم نے اپنے دین کی تعلیمات کو نظر انداز کیا اور مصائب و آلام میں مبتلا ہیں۔