کراچی اور پشاور کی کہانی اور قسمت ایک جیسی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے پہلے اور دنیا کے ساتویں بڑے شہر ’کراچی‘ میں تجاوزات سے متعلق مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس گلزار احمد نے گزشتہ ہفتے اِس بارے سندھ حکومت کو متوجہ کیا تھا کہ ”کراچی گاو¿ں نما لگتا ہے کیونکہ یہاں کچھ بھی مثالی حالت میں موجود نہیں۔ سڑکیں‘ پانی اور سبزہ زاروںکی خستہ حالی پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے سندھ حکومت کو ہدایت کی گئی کہ وہ خاطرخواہ اقدامات کرے۔“ عدالت کے روبرو پیش ہوئے وزیراعلیٰ سندھ نے یقین دہانی کروائی کہ وہ تجاوزات کے خاتمے اور نشاندہی کئے گئے مسائل کے حل پر توجہ دیں گے۔ اطلاعات کے مطابق تجاوزات کے خلاف کراچی میں یوں تو سارا سال ہی کاروائیاں جاری رہتی ہیں تاہم چار جنوری دوہزار اکیس کے روز ’نئے عزم‘ سے مذکورہ کاروائیوں کا آغاز ’محمود آباد نالے‘ کے اطراف میں سات کلومیٹر پٹی پر قائم 319 تجاوزات کی نشاندہی کے بعد اُن کے خاتمے کا عمل شروع کر دیا گیا۔ 4 جنوری 2021ءہی کے روز پشاور میں بھی تجاوزات خاتمے سے متعلق غوروخوض کے جاری عمل میں نکاسی¿ آب کے قدیمی نظام (شاہی کٹھے) کی صفائی اور اِس پر قائم غیرقانونی عمارتیں ختم کرنے پر اتفاق رائے سامنے آیا۔ اور ”واٹر اینڈ سینٹی ٹیشن سروسز پشاور (ڈبلیو ایس ایس پی)“ نے پشاور میں نکاسی¿ آب کے نظام کو بہتر بنانے اور آبادی کے لحاظ سے اِس نظام کی کشادگی پر ’ٹاو¿ن ون‘ اور ’ضلعی حکومت (سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ) سے تجاویز طلب کی ہیں۔ شاہی کٹھہ 10 کلومیٹر طویل ہے جس کا صرف 5 فیصد حصہ ہی تجاوزات سے بچ پایا ہے۔ نکاسی¿ آب کا یہ نظام مہاراجہ رنجیت سنگھ کے دور حکومت میں پشاور کے گورنر ’جنرل پاولو ایوٹیبل نے تعمیر کروایا تھا اور اِسی گورنر نے فصیل شہر کے کئی حصوں کو ازسرنو تعمیر کرتے ہوئے اِس میں نئے دروازوں اور دیوار کی اونچائی میں اضافہ کروایا تھا۔ پشاور کے 2 بنیادی مسائل پر توجہ دینے سے پشاور اور جنرل ایوٹیبل میں اجنبیت ختم ہوتی چلی گئی اور اہل پشاور نے اُنہیں اپنائیت میں ’ابوطبیلہ‘ کے لقب سے پکارنا شروع کیا۔ معلوم ہوا کہ جب کوئی غیرمقامی شخص مقامی مسائل کے حل پر توجہ دیتا ہے تو اُسے پیار ملتا ہے لیکن جب مقامی فیصلہ ساز اپنے شہر کے مسائل کے حل کی بجائے اِس میں اضافے کا باعث بنتے ہیں تو ایسا طرزحکمرانی اور حکمراں کی حیثیت و تذکرہ ضمنی رہ جاتا ہے کیونکہ جو مسئلے کا حل نہیں ہوتا وہ بذات خود مسئلہ ہوتا ہے۔شاہی کٹھہ سمیت پشاور میں نکاسی¿ آب کے نظام کی اصلاح و توسیع کےلئے ’جامع تحقیقی رپورٹ‘ امریکہ کے امدادی ادارے ’یو ایس ایڈ کے مالی و تکنیکی تعاون و نگرانی میں مرتب کی گئی جو ”پلاننگ اینڈ انجنیئرنگ سروسز فار ماسٹر پلان اِن پشاور خیبرپختونخوا‘ نامی منصوبے کا حصہ ہے۔ اِس حکمت عملی کی خلاصہ 69 صفحات پر مبنی ہے جس میں کلیدی تکنیکی پہلوو¿ں کا اشارتاً ذکر کرتے ہوئے اپریل 2014ءمیں رپورٹ ہر خاص و عام کے مطالعے و معلومات کےلئے جاری کی گئی۔ عجب ہے کہ اِس جامع حکمت عملی کی موجودگی میں بھی ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے فیصلہ سازوں کو ’ٹاو¿ن ون‘ اور ’ضلعی حکومت‘ کی مدد و مشاورت درکار ہے‘ جنہیں اگر معاملے کی سمجھ بوجھ ہوتی اور جن کا پشاور سے ’گہرا دلی تعلق‘ ہوتا تو یہ بات ممکن ہی نہیں تھی کہ شاہی کٹھہ پر 280 سرکاری اور 120 نجی تعمیرات ہوتیں۔ جب ہم 280 سرکاری اثاثوںکی بات کرتے ہیں تو اگرچہ اِن کی ملکیت سرکاری ہے لیکن یہ مختلف ادوار میں منظورنظر سیاسی کارکنوں کو کرائے اور اجارے پر کچھ اِس رازداری سے دی گئیں کہ اہل پشاور کو کانوں کان خبر نہ ہو سکی اور اب جبکہ شاہی کٹھے پر مذکورہ 400 تعمیرات کی فرداً فرداً جانچ پڑتال کی گئی ہے تو صرف پانچ دکانداروں کے پاس ایسے کاغذات ہیں جن کی بنیاد پر اُنہیں شاہی کٹھہ پر تعمیر کی اجازت حاصل ہوئی لیکن ٹاو¿ن اور ضلعی حکومت کی جانب سے دی گئی یہ اجازت بھی اختیارات سے تجاوز ہی ہے۔ ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کے فیصلہ ساز اگر سنجیدہ ہیں اور اپنے قیام کے بنیادی مقصد کی تکمیل و تعمیل چاہتے ہیں تو ’یو ایس ایڈ‘ کی زیرنگرانی مرتب ہوئی مذکورہ حکمت عملی کا مطالعہ کریں جس پر عمل درآمد کی تکمیل و اختتام سال 2022ءمیں ہونا ہے اور اِسی کے تحت ’ڈبلیو ایس ایس پی‘ کا قیام بھی عمل میں لایا گیا تاہم پشاور میں نہ تو نکاسی¿ آب کا نظام حسب حکمت عملی درست ہو سکا اور نہ ہی پشاور کی 92 یونین کونسلوں میں پینے کے پانی کی فراہمی ممکن بنائی جا سکی۔ 10کلومیٹر طویل اور 8 فٹ چوڑا شاہی کٹھہ مٹی ریت اور گندگی سے بھر چکا ہے جس کی صفائی کئی دہائیوں سے نہیں ہو رہی کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں اور نالے پر پُل ڈال کر دکانیں‘ مکانات‘ مساجد‘ سڑکیں اور گلیاں راستے بنا دیئے گئے ہیں جن کی مالیت (مارکیٹ ویلیو) اربوں روپے ہے اور اِن سے ماہانہ کروڑوں روپے کے مالی مفادات وابستہ ہیں‘ القصہ مختصر کراچی ہو یا پشاور‘ تجاوزات کسی ایک شہر کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ قومی مسئلہ اور ایسا درد سر ہے‘ جس کا ’سپریم کورٹ‘ ازخود نوٹس نہ بھی لے اور سپریم کورٹ کا خوف نہ بھی محسوس کیا جائے تب بھی اِس مسئلے کا پائیدار حل ہونا چاہئے۔