پہلا نکتہ: ’پاکستان سٹیزن پورٹل‘ کا آغاز وزیراعظم عمران خان نے اکتوبر 2018ءمیں کیا تھا جس کے تحت 3760 وفاقی اور صوبائی محکموں کی کارکردگی سے متعلق یا اُن کی توجہ کےلئے گزارشات بذریعہ ’سمارٹ موبائل فونز‘ درج کروائی جا سکتی ہیں۔ اِس ”تجربے“ کی ”کامیابی“ کے قریب دو برس بعد ’ستمبر 2020ئ‘ پاکستان سٹیزن پورٹل کی ’ویب سائٹ‘ بھی جاری (launch) کر دی گئی جس کے بعد سمارٹ موبائل فونز کے علاوہ بھی شکایات اور گزارشات درج کروانے کا عمل متعارف کروا دیا گیا لیکن اِن دونوں طریقوں (موبائل فون اور ویب سائٹ) کے ذریعے شکایت یا عرض حال صرف وہی صارفین ’وزیراعظم کے دفتر (پرفارمنس ڈیلیوری یونٹ PMDU) کی وساطت سے مدد طلب کر سکتے ہیں جو انٹرنیٹ‘ موبائل فون اور ویب سائٹس استعمال کی خاطرخواہ خواندگی رکھتے ہوں اور اُن کے پاس ایک عدد سمارٹ یا عام قسم کا موبائل فون موجود ہو کیونکہ شکایت یا عرض گذاشت کرنے والے صارف کے حقیقی ہونے کی تصدیق کےلئے اُس کا قومی شناختی کارڈ نمبر اور موبائل فون نمبر کا ہونا ضروری ہے۔دوسرا نکتہ: سرکاری اِداروں کی کارکردگی جانچنے کا پیمانہ برسرزمین صورتحال (حقیقی دنیا کی مشکلات و مسائل کی بہتات اور شدت) نہیں رہی بلکہ ’پاکستان سٹیزن پورٹل‘ نامی غیبی (virtual) ’عدل کی زنجیر‘ بن چکی ہے جس تک رسائی اور جس زنجیر کو ہلانے کے وسائل(انٹرنیٹ و سمارٹ فون) اور جدید مواصلاتی آلات کے استعمال متعلق علم رکھنے والوں کو ’فوری اِنصاف‘ ملنے کا دعویٰ کیا جاتا ہے!تیسرا نکتہ: وفاقی اور صوبائی سطح پر محکموں سے متعلق الگ الگ شکایات یا گزارشات درج کرانے کے جاری عمل (تجربے) سے خاطرخواہ بہتری نہیں آئی البتہ متاثرین و صارفین کو اِس حد تک تسلی ضرور مل جاتی ہے کہ گھر بیٹھے اُن کی جانب سے دائر کردہ درخواست مختلف سرکاری اداروں میں گھوم رہی ہے اور ہر ادارہ یا ادارے کی جانب سے اِس پر ہونے والی کاروائی سے اُسے آگاہ بھی کیا جارہا ہے۔ اِس چند روزہ کاروائی کا منطقی انجام بڑا ڈرامائی ہے کہ چند روز بعد فریاد کرنے والے کو اچانک خبر دی جاتی ہے کہ اُس کا مسئلہ حل کر دیا گیا ہے اور اُس کی درخواست پر کاروائی مکمل کر لی گئی ہے۔ اِس کے بعد صارف سے پوچھا جاتا ہے کہ کیا وہ اپنی شکایت سے متعلق ہوئی کاروائی پر مطمئن ہے؟ اگر نہیں تو وجوہات تحریر کر دے۔ اِس مرحلے پر اگر عدم اطمینان کا اظہار کیا جائے اور وجوہات تفصیل سے تحریراً بیان بھی کر دی جائیں تب بھی شکایت پر ازسرنو کاروائی کا آغاز نہیں ہوتا بلکہ اُسے نمٹا دیا جاتا ہے اور یوں کسی صارف یا متاثرہ شخص کی تسلی و تشفی ہو یا نہ ہو اور اُسے اطمینان حاصل ہو یا نہ ہو لیکن درخواست کو نمٹا اور شکایت کو ختم (close) کر دیا جاتا ہے۔ سٹیزن پورٹل کا مقصد سرکاری اداروں کی کارکردگی کا احتساب تھا لیکن یہ احتساب خط و کتابت جیسی لوازمات سے آگے نہیں بڑھ سکا اور اِسی خط و کتابت کی بنیاد پر اعدادوشمار مرتب کر کے ’سٹیزن پورٹل‘ کی کامیابی یا کسی سرکاری ادارے کی کارکردگی کے بارے میں تاثر (یا رائے) قائم کی جا رہی ہے جو سراسر مغالطہ (خوش فہمی) ہے۔ یہ صرف ان لوگوں کے مسائل سامنے آئے ہیں جن کے پاس سمارٹ فون‘ اِنٹرنیٹ اور کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ جیسی سہولیات اور خواندگی‘ شعور اور فرصت ہے جبکہ اہل پشاور اور بالخصوص اندرون شہر (ٹاو¿ن ون) کی حدود میں رہنے والوں کی اکثریت کا جن مسائل سے ہر روز سامنا رہتا ہے اندرون شہر میں ٹاو¿ن ون انتظامیہ دفتری اوقات کے دوران بھی دکھائی نہیں دیتی جبکہ بعدازاں ٹاو¿ن ون اہلکاروں کی سرگرمیاں اُن کے واٹس ایپ و فیس بک سٹیس پر ہی دکھائی دیتی ہیں۔