خیبر پختونخواحکومت نے حقوق نسواں کے تحفظ کےلئے بولو ہیلپ لائن ٹول فری نمبر جاری کردیا ہے۔گھریلو تشدد،صنفی امتیازسمیت مشکل صورتحال کا سامنا کرنے والی خواتین ٹول فری نمبر پر کال کرکے متعلقہ حکام کو اپنی بات بلاخوف و خطر بتا سکتی ہیں جس پر فوری طور پر حکام کی طرف سے ضروری اقدامات کیے جائیں گے۔ اور خوا تین کو بھر پور تحفظ ملے گا ۔تحفظ نسواں کے اس پروگرام میں صوبائی حکو مت کو متعلقہ اضلاع کی انتظامیہ اور محکمہ سماجی بہبود کا تعاون بھی حاصل ہوگا۔حکومت کا کہنا ہے کہ ظلم و زیادتی، جنسی و جسمانی تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین کو قانونی اور مالی امداد کے علاوہ ان کی متبادل رہائش کا بھی انتظام کیا جائے گا۔بولو ہیلپ لائن کے ذریعے خواتین کو جنسی تشددوجسمانی ایذاسے بچانے کے لئے قانونی تحفظ اور پولیس شیلٹر کے بارے میں بھی آگاہ کیا جائے گا۔ حکومت کے تعمیری، اصلاحی اور اچھے کاموں میں کیڑا نکالنے کی کوشش کرنا مناسب نہیں، تاہم اپنے تحفظات کا اظہار کرنا ہر شہری کا بنیادی آئینی و قانونی حق ہے۔مظلوم خواتین کی داد رسی اپنی جگہ مگر دیکھا جائے توہمارے معاشرے میں مرد بیچارہ سب سے زیادہ مظلوم ہے۔ وہ دن بھر بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے محنت مزدوری کرتا ہے اپنے باس، ٹھیکیدار، جمعدار اورسینئرز کی جھڑکیاں سنتا ہے۔ تھک ہار کر گھر آتا ہے تو بیگم کی طرف سے فرمائشیں پوری نہ ہونے کے طعنے سہنا پڑتا ہے۔ گھر میں جو کچھ پکا ہو۔بے چون و چرا کھانا پڑتا ہے۔ کبھی کچھ اچھا کھانے کی خواہش کا اظہار کرے تو سو باتیں سننی پڑتی ہیں۔ ہم نے اپنے ان گنہگار آنکھوں سے بےچارے مردوں کو بیلن، ڈنڈے اور جوتیاں کھاتے بھی دیکھا ہے۔ مجال ہے کہ یہ مردم سوز ظلم و ستم سہنے کے باوجود ان کے منہ سے اف تک نکلا ہو۔ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسے مردوںکو تشدد اور ظلم و ستم سے بچانے اور تحفظ فراہم کرنے کےلئے آج تک کوئی قانون بنا نہ ہی کسی نے ان کی فریاد سنی۔ وہ ایسے بد قسمت مظلوم ہیں کہ انہیں گھر کے اندر جھڑکیاں اور گھر کے باہر جورو کا غلام ہونے کے طعنے سننے پڑتے ہیں۔ جس طرح سارے مرد ظالم نہیں ہوتے اسی طرح تمام خواتین مظلوم نہیں ہوتیں۔گھریلو تشدد مردوں پر بھی ہوتا ہے۔ مگر وہ شرم کے مارے کسی سے فریاد یا مدد کی درخواست نہیں کرتے۔ ایسے مظلوم، مقہور اور مجبور مردوں کو بھی گھریلوتشدد سے بچانے کے لئے کوئی قانون سازی اور ریلیف پیکج دینا چاہئے۔کوئی بھی جرنیل، جج، کسی محکمے کے سیکرٹری، ڈائریکٹر جنرل ، منیجنگ ڈائریکٹر اور جنرل منیجر سمیت کسی وزارت، محکمے،ڈویژن اور ادارے کا بڑا افسر اپنے دفتر کے احاطے میں ہی شیر ہوتا ہے۔ گھر کے اندر اس کی حیثیت ثانوی ہوتی ہے۔ اور اپنی مظلومیت کو وہ ان الفاظ کے لبادے میں چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ ہر شریف آدمی اپنی بیوی سے ڈرتا ہے۔اور گھر کے اندر حاکمیت عورت کی ہی ہوتی ہے۔خود کو شرفاءکی صف میں شامل کرکے اپنی مظلومیت چھپانے والے لوگ سب سے زیادہ قابل رحم اور مدد کے مستحق ہوتے ہیں۔خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کا حکومتی فیصلہ بلاشبہ قابل تحسین ہے لیکن مظلوم کے خانے سے مردوں کو خارج کرنا انصاف کے منافی ہے۔ہمارے پالیسی سازوں کو مظلوم مردوں کی آہ سے بچنے کی بھی تدبیر کرنی چاہئے ۔