بیرون ملک طب کی تعلیم

پاکستان میڈیکل کمیشن کی جانب سے بیرون ملک طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل) کی انڈرگریجویٹ تعلیم کے اِداروں کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ بیرون ملک کے تعلیمی اداروں میں داخلے کے خواہشمند افراد کی رہنمائی کےلئے ’سہ رنگی فہرستیں‘ گرین (سبز)‘ گرے (خاکستری) اور بلیک (سیاہ) رنگوں سے تشبیہ دینے کا مستقبل اُن لاکھوں طلبہ کا مستقبل محفوظ بنانا ہے جن کی پہلی کوشش اندرون ملک (پاکستان) میں داخلے ہوتے ہیں لیکن ہر طرف سے مایوسی کے بعد اُنہیں مجبوراً بیرون ملک داخلے لینے پڑتے ہیں‘ تاہم طب کی بیرون ملک تعلیم کے وسائل کو شرح فیسوں کے لحاظ سے مزید کئی درجوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کے سرکاری و نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجوں میں داخلہ حاصل کرنے کےلئے آخری تاریخ 19 جنوری 2021ءمقرر ہے جبکہ حسب سابق داخلوں کا یہ عمل رواں ماہ کے اختتام تک مکمل ہونے کے بعد والدین اور طلبہ بیرون ملک تعلیمی اداروں میں داخلے کےلئے سرگرداں ہونا شروع ہو جائیں گے۔پاکستان میں طب (میڈیکل و ڈینٹل) کی تعلیم کے لئے طلب تو موجود ہے لیکن تعلیمی ادارے نہیں اور اِس صورتحال کا ہمسایہ ممالک (چین‘ بھارت‘ ایران اور مشرق وسطی کی ریاستوں بشمول روس) بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں جہاں معیاری اور غیرمعیاری طب کی تعلیم کے ادارے قائم ہیں۔ اِس صورتحال جسے تعلیمی سیاحت (education tourism) بھی کہا جا سکتا ہے سے فائدہ اُٹھانے والوں میں امریکہ‘ برطانیہ‘ جرمنی‘ آسٹریلیا‘ کیوبا اور وہ یورپی ممالک بھی شامل ہیں جہاں انگریزی زبان رائج ہے اور پاکستانی طلبہ کو وہاں کے ماحول کے مطابق خود کو ڈھالنے میں زیادہ دقت نہیں ہوتی لیکن یہاں مسئلہ اور مقابلہ والدین کی مجبوری و لاعلمی اور مارکیٹنگ (کاروباری حکمت عملی) کے درمیان ہے کہ والدین کی اکثریت کو علم نہیں ہوتا کہ اُن کے بچے بیرون ملک جن اداروں میں داخلہ لے رہے ہیں کیا اُن کی اسناد پاکستان میں تسلیم کی جائیں گی۔ اِس سلسلے میں پاکستان میں طب کے نگران ادارے (میڈیکل کمیشن) نے ”اچانک“ بڑی تعداد میں بیرون ملک تعلیمی اداروںکو ’نامعتبر (بلیک لسٹ)‘ قرار دیدیا ہے جو اِس سے قبل ’قابل قبول (گرین لسٹ)‘ تھے اور جہاں ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی طلبہ نے داخلے لئے جو اب بھی مختلف مدارج میں زیرتعلیم ہیں لیکن پاکستان کی جانب سے اُن اداروں کو ’بلیک لسٹ‘ کرنے کے اعلان سے والدین اور طلبہ کا پریشانی سے دوچار ہونا ایک فطری ردعمل ہے‘ جن کا کوئی قصور نہیں لیکن اُنہیں ایک ناکردہ جرم (اپنے وسائل سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش و کوشش) کی سزا مل رہی ہے۔ نئے بندوبست سے بیرون ملک تعلیم پر بھی صرف اُنہی طلبہ کا حق ہوگا جو بھاری فیسوں کی صورت بیرون ملک تعلیم کے اخراجات ادا کرنے کے قابل ہوں گے جبکہ اندرون ملک کم نمبروں کی وجہ سے اُنہیں (باوجود کوشش و خواہش) بھی داخلہ نہیں دیا گیا۔ میڈیکل کمیشن کی ویب سائٹ (pmc.gov.pk) پر موجود تفصیلات کے مطابق کرغستان کی جن 15میڈیکل کالجز اور جامعات کو ’غیر معتبر (black-list)‘ قرار دیتے ہوئے اُن کی اسناد کا اندراج ’سیاہ فہرست‘ میں کیا گیا ہے۔ پاکستان میں طب کی تعلیم کے اداروں کو میڈیکل اور ڈینٹل شعبوں میں الگ الگ تقسیم کرنے کے بعد اہل سرکاری و نجی تعلیمی اداروں کی الگ الگ فہرستیں مرتب کی گئی ہیں۔ نجی شعبے میں 72 میڈیکل اور 42 ڈینٹل کالجوں جبکہ سرکاری سرپرستی میں 45 میڈیکل اور 17ڈینٹل کالجوں میں دی جانے والی تعلیم پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے۔ اصولاً سرکاری میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجوں کی کل تعداد نجی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجوں سے زیادہ ہونی چاہئے تھی لیکن دونوں شعبوں میں تعلیم کو نجی اداروں کے حوالے کر دیا گیا ہے اور پاکستان میں طب کی تعلیم پر نجی اداروں کی قائم اجارہ داری کے باعث ممکن بھی نہیں رہا کہ فیسوں میں کمی کی جائے جو فی طالب علم 10 لاکھ روپے سالانہ سے تجاوز کر چکی ہیں۔ اندرون ملک اور بیرون ملک طب کی تعلیم یہی ’بلند قیمت‘ وہ بنیادی فرق (جواز) جس کے باعث والدین کڑوا گھونٹ پیتے ہوئے بچوں سے جدائی برداشت کرتے ہیں اور اُنہیں بیرون ملک تعلیم کے بھیجا جاتا ہے۔ دوسرا محرک پاکستان میں طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجوں و جامعات) میں نشستوں کی کم تعداد ہے‘ جن میں حسب آبادی اِضافہ نہیں کیا جارہا اور ہر سال ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ’طالب علم‘ اہلیت‘ خواہش اور ترجیح کے باوجود بھی داخلوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔بیرون ملک طب کی تعلیم ترجیح نہیں لیکن مجبوری کے باعث داخلہ لینے والے والدین کی تسلی و تشفی کا اہتمام ہونا چاہئے۔ جن ’بلیک لسٹ‘ قرار دیئے گئے اداروں میں پاکستانی طلبہ زیرتعلیم ہیں‘ اُن کا مستقبل محفوظ بنانے کے ساتھ ضرورت ہے کہ والدین اور طلبہ کی آگاہی کےلئے تشہیری مہمات چلائی جائیں تاکہ وہ آئندہ نامعتبر (black-listed) قرار دیئے گئے اِداروں کی چنگل میں نہ آئیں۔ مرحلہ¿ فکر (خلاصہ کلام) یہ ہے کہ بیرون ملک تعلیم حاصل کر رہے اور تعلیم کے خواہشمند والدین اور طلبہ قصوروار نہیں بلکہ پاکستان میں طب کی تعلیم کے نگران حکومتی ادارے اور وفاقی و صوبائی فیصلہ سازوں کو مل بیٹھ کر اِس مسئلے کا پائیدار حل تلاش کرنا چاہئے۔