سپریم کورٹ آف پاکستان نے خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر60سال سے بڑھا کر 63 سال کرنے کے فیصلے کے خلاف اپیل پر پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے قانون کو برقرار رکھا ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بنچ نے معاملہ دوبارہ فیصلے کےلئے پشاور ہائیکورٹ کو واپس بھجوا دیا۔چیف جسٹس گلزار احمد خان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ قانون آئین کے تحت بنتا ہے رولز آف بزنس سے نہیں۔صرف وضاحتوں سے قانون چیلنج نہیں ہوتے۔چند سول سرونٹس کے تحفظات پر قانون کو غلط قرار نہیں دیا جا سکتا۔سرکاری ملازمین کے وکیل کا کہنا تھا کہ سول سرونٹ ایکٹ میں ریٹائرمنٹ کی عمر 55 سال کر دی گئی۔25 سال کی سروس پر ریٹائرمنٹ کا قانون ختم کر دیا گیا۔اسمبلی میں کسی کو سنے اور بحث کیے بغیر بل پاس کیا گیا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ اگر کسی کو اسمبلی کی کاروائی پر اعتراض ہے تو اسمبلی میں جاکر شکایت کرے۔جب روٹی پک چکی ہوتو یہ پوچھنا بیکار ہے کہ آٹا کہاں سے آیا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جب قانون پر گورنر کے دستخط ہو گئے تو معاملہ ختم ہو گیا۔قانون سازی میں کسی کا موقف سننے کا تصور نہیں ہے۔ خیبرپختونخوا حکومت نے سالانہ 24 ارب روپے کی بچت کےلئے سرکاری ملازمین کی ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سے بڑھا کر 63 برس کردی تھی۔ آئین کی دفعہ 240ب کے تحت صوبائی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اس بارے میں صوبائی اسمبلی میں قانون سازی کرے۔عدالت عظمیٰ کا فیصلہ اس حوالے سے تاریخی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں آئین کے تحت مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے اختیارات کی تشریح اور وضاحت کی گئی ہے۔قومی مفادات اور ملکی ضروریات کے مطابق قانون بنانا مقننہ کی ذمہ داری ہے۔ حکومت چاہے تو کوئی قانون بنانے سے قبل متعلقہ سٹاک ہولڈرز سے مشاورت کرسکتی ہے۔ ایک بار قانون بن جائے تو اس کا نفاذ عدالتوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے۔البتہ کوئی قانون قومی مفادات سے متصادم ہو یا موجودہ حالات سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو اس میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی اسمبلی کے پاس ہے اپوزیشن یا حکومت ترمیمی قانون کا مسودہ ایوان میں پیش کرسکتی ہے وزارت قانون و انصاف اس کا مسودہ تیار کرکے بحث کے لئے ایوان میں پیش کرتی ہے منتخب ارکان اس کے مختلف پہلوﺅں پر بحث کے بعد اسے حتمی شکل دیتے ہیں۔ قومی اسمبلی اور سینٹ سے منظوری کے بعد اسے صدر جبکہ صوبائی اسمبلیوں سے قانون کی منظوری کے بعد اسے گورنر کے پاس دستخطوں کےلئے بھیجا جاتا ہے۔صدر اور گورنر کے دستخط کے بعد قانون لاگو ہوتا ہے۔ہر قانون اجتماعی مفادات کو مد نظر رکھ کر بنایاجاتا ہے اگر زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد ملکی قوانین کو اپنے مفادات کے تابع بنانے کے لئے احتجاج، دھرنے، ہڑتال اور عدالتی چارہ جوئی کا راستہ اختیار کریں تو ملک کا نظام چلانا مشکل ہوجائے گا ہر سرکاری ملازم پر قومی خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں۔سٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ریٹائرڈ ملازمین کو دی جانے والی پنشن محکمہ تعلیم اور صحت پر خرچ ہونے والے مجموعی سالانہ بجٹ سے بڑھ چکی ہے۔بین الاقوامی مالیاتی ادارے بھی پاکستان پر پنشن ختم کرنے کےلئے دباﺅ ڈال رہے ہیںحکومت کو اس حوالے سے قانون سازی کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کی رو سے اس قانون کو چیلنج نہیں کیاجاسکتا۔