چراغوں کا امتحاں۔۔

کوئٹہ کثیرالثقافتی ہونے کے ساتھ کثیرالسانی شہر بھی ہے جہاں صرف بلوچ قبائل ہی آباد نہیں بلکہ ملک کے دیگر حصوں سے نقل مکانی کرنے والی مختلف قومیتیں بشمول پختون‘ ہندکووان‘ ہزارہ‘ سرائیکی اور پنجابی النسل لوگ بطور بلوچی اپنا تعارف فخر سے کراتے ہیں کیونکہ بلوچ ایک غیور اور محب الوطن خطہ ہے‘ جس کے خلاف پاکستان کے ہمسایہ اور عالمی طاقتوں کی سازشیں ڈھکی چھپی نہیں یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ بلوچستان کے قبائلی ماحول میں رہنے والے ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں برابر شریک رہتے ہیں‘ جس کا تازہ ترین (حالیہ) مظاہرہ سانحہ مچھ (تین جنوری دوہزاراکیس) کے بعد دیکھنے میں آیا۔ مذکورہ سانحے کی تفصیلات اور تصاویر منظرعام پر آنے کے بعد (چار جنوری) سے ملک کے دیگر حصوں کی نسبت سب سے زیادہ سوگ اور احتجاج (مذمت) کوئٹہ میں دیکھی گئی جہاں اگرچہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے گیارہ کان کنوں کو انتہائی بیدردی و سفاکی سے قتل کرنے پر صوبائی حکومت پر سکتہ طاری تھا اور اِسی بنا پر سرکاری سطح پر ’سوگ کا اعلان‘ نہیں کیا گیا تاہم ہزارہ برادری نے اپنے خلاف مظالم پر احتجاجی دھرنا دیا‘جن کی حمایت میں کراچی سے پشاور تک چھ روز اِحتجاج جاری رہا بلوچستان کی طرح ملک کے طول و عرض میں ہزارہ برادری کے دکھ اور صدمے میں شریک ہو کر اہل پاکستان نے ایک اور سازش ناکام بنا دی ہے۔ دہشت گرد کاروائیوں کے ذریعے پاکستان کو جس قدر کمزور بنانے کی کوشش (سازش) کی جاتی ہے‘ پاکستان اُسی قدر متحد و مضبوط ہو کر اُبھرتا ہے۔بلوچستان اور کوئٹہ کے معاشرے میں بالخصوص علمائے کرام اور سیاسی قیادت کا خاص کردار ہے‘ جو سانحہ مچھ (مچ) میں بھی سامنے آیا اور یہ صاحبان بصیرت کی غیرمشروط اور ہر حال میں حب الوطنی ہی ہے‘ جس نے نفرت کے آلاو¿ کو ایک مرتبہ پھر سرد کیا ہے۔چھ دن پُرامن اور سسکیوں‘ آنسوو¿ں اور آہوں کے ساتھ ہوا اِحتجاج اختتام پذیر ہوا۔ وزیر داخلہ بلوچستان ضیا لانگو کے بقول ”حکومت اپنی ذمہ داری (سیکورٹی) سے غافل نہیں“ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آٹھ جنوری کی شب وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور ہزارہ برادری کے نمائندوں کے درمیان طے پانے والے تحریری معاہدے کی شقوں پر کس قدر عمل درآمد ممکن ہو پاتا ہے بلوچستان کی صورتحال میں کچھ بھی پائیدار نہیں اور اِس میں بیرونی طاقتوں کے عمل دخل کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ اِس سلسلے میں بھارت کے خفیہ ادارے ’ریسرچ اینڈ اینلاسیز ونگ (را)‘ کے لئے کام کرنے والے جاسوس ’کلبھوشن یادیو‘ کی بلوچستان سے گرفتاری اور اُس کا اعتراف جرم لائق توجہ ہے‘ فرقہ ورانہ فسادات اور ٹارگٹ کلنگز کا در پردہ ایک محرک بھارت بھی ہے اور یہی وہ بیرونی ہاتھ (محرک) ہے جو دیگر خارجی عوامل کا حصہ ہے اور اِن سازشوں (خطرات) کو نظرانداز نہیں بلکہ پیش نظر رکھنا چاہئے۔ ہزارہ برادری کے بہت سارے چراغ گل ہونے کے باوجود اُن کی آنکھوں‘ دعاو¿ں اور التجاو¿ں میں اچھے دن دیکھنے کی خواہش‘ اُمید اور مطالبہ اپنی جگہ اہم (خراج عقیدت کے لائق) ہیں۔