ضم اضلاع میں احساس پروگرام ۔۔

غربت کے خاتمے اور سماجی بہبود سے متعلق وزیر اعظم کی معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے ٹانک اور جنوبی وزیر ستان میں چار قبائلی جرگوں سے ملاقات میں بتایا ہے کہ تمام ضم اضلاع میں احساس پروگرام کے تحت غریب خاندانوں کی تفصیلات جمع کرنے کی خاطر جنوبی وزیرستان میں سروے کا آغاز کیاگیا ہے ‘ٹانک اور جنوبی وزیرستان غربت، غذائی قلت اور بچوں کی شرح اموات کے حوالے سے خیبر پختونخوا کے سب سے زیادہ پسماندہ اضلاع میں شامل ہیں۔ اس مسئلے پر قابو پانے کیلئے صوبے کے جنوبی اور قبائلی اضلاع میں سروے کے عمل کو تیز کیا جارہا ہے۔ احساس پالیسی کے مطابق قبائلی علاقوں میں غریب گھرانوں کی کفالت، وسیلہ تعلیم ڈیجیٹل، انڈرگریجویٹ سکالرشپ، آمدن، بلاسود قرضوں اور نشوونما میں شمولیت کو یقینی بنائے گا۔ گھرانوں کی پروفائلنگ کمپیوٹرائزڈ ڈیجیٹل طریقے سے کی جارہی ہے اور آئندہ چند ماہ میں اسے مکمل کرلیا جائیگا۔یہ سروے غیر سیاسی بنیادوںپر کیاجارہا ہے تاکہ کوئی بھی غیر مستحق گھرانہ سماجی تحفظ پروگرام سے باہر نہ رہ جائے۔ڈاکٹر ثانیہ نے واضح کیا کہ احساس قومی سماجی و معاشی رجسٹریشن سروے غیر متنازعہ نوعیت کا ہے اور مذہب، نسل یا کسی بھی علاقے سے قطع نظر پسماندہ لوگوں کو فائدہ پہنچانے کیلئے ملک بھر میں اس کا آغاز کیا گیا ہے۔ احسا س پالیسی کے تحت ہر ضلع میں سروے مکمل ہونے سے پہلے رجسٹریشن ڈیسک کھولے جاتے ہیں تاکہ سروے میں رہ جانے والے خاندانوں کی شمولیت کو یقینی بنایا جاسکے۔ احساس کفالت پروگرام کو موجودہ حکومت کا فلیگ شپ پروگرام کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ اس پروگرام کے تحت کورونا سے متاثرہ غریب خاندانوں میں بارہ ہزار روپے فی کس کے حساب سے144ارب روپے کی خطیر رقم تقسیم کی گئی۔پروگرام کی افادیت کے پیش نظر اس میں مزید توسیع کرتے ہوئے وسیلہ تعلیم، سکالرشپ پروگرام اور بلاسود قرضوں کا منصوبہ بھی شروع کیا گیا۔ تاکہ غریب اور کم آمدنی والے خاندانوں کو اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے میں مدد دی جاسکے۔ خیبر پختونخوا میں ضم ہونےوالے قبائلی علاقوں میں احساس کفالت پروگرام کا آغاز اس حوالے سے خوش آئند ہے کہ ملک کے دیگر حصوں کے برعکس یہاں عام لوگوں کےلئے روزگار کے وسائل بہت محدود ہیں جس کی وجہ سے ایک کروڑ کی آبادی پر مشتمل قبائلی عوام کی اکثریت گذشتہ سات عشروں سے کسمپرسی کی زندگی گذار رہی ہے۔ یہاں کے محنت کش مقامی سطح پر روزگار کے مواقع نہ ملنے پر ملک کے دوسرے شہروں اور بیرون ملک جاکر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ قبائلی علاقوں کےلئے صوبے میں انضمام سے پہلے ”علاقہ غیر“ کا لفظ استعمال کیاجاتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں فی کس آمدنی ملک کے دیگر علاقوں سے نصف ہے۔ یہاں خواندگی کی شرح 30فیصد ہے جبکہ خواتین میں خواندگی کی شرح 20فیصد سے بھی کم ہے۔کرم، اورکزئی، شمالی اور جنوبی وزیرستان میں آبی وسائل کی بدولت نصف آبادی زراعت سے وابستہ ہے جبکہ خیبر، باجوڑ اور مہمند میں دس سے پندرہ فیصد لوگ بارانی زمینوں سے فصلیں اگاکر اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔ احساس پروگرام کی بدولت ضم اضلاع میں نہ صرف خواتین اور نوجوانوں کا مستقبل روزگار اور تعلیم کے حوالے سے روشن ہوگا بلکہ بلاسود قرضوں کی بدولت لوگوں کو کاروبار کرنے، تعلیم ، فنی تربیت اور زراعت کی ترقی کے ادارے کھولنے کے مواقع مل جائےں گے جس سے نہ صرف لوگوں کو روزگار ملے گا بلکہ لوگوں کی معاشی حالت بھی بہتر ہوگی۔ ہر غریب خاندان تک یہ سہولت پہنچانے کےلئے ضروری ہے کہ سروے کا عمل شفاف طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچانے میں قبائلی عوام رضاکارانہ طور پر احساس رجسٹریشن ٹیموں کےساتھ تعاون اور ان کی رہنمائی کریں تاکہ کوئی غریب خاندان کفالت سے محروم نہ رہے۔ ضم اضلاع میں وسیلہ تعلیم، ایجوکیشن سکالرشپ اور بلاسود قرضوں کے پروگرام سے قبائلی نوجوانوں کو اپنی صلاحیتیں بروئے کار لانے کا موقع ملے گا۔ اجتماعی مفاد کے اس پروگرام سے بھرپور استفادہ کرنے کےلئے ضروری ہے کہ فنڈز کی تقسیم اور مصارف کی کڑی نگرانی کی جائے ۔