گزشتہ کچھ عرصہ سے جس طرح ڈاکٹراورمریض کے درمیان تعلق مسیحاومحتاج کے بجائے دکاندار اورگاہک کابناہواہے اس کی وجہ سے عام لوگو ں کے لئے کسی بھی چھوٹی بڑی بیماری کاعلاج آسان امر نہیں رہا کیونکہ ڈاکٹروں، کیمسٹوں، فارماسیوٹیکل کمپنیز مالکان ،لیبارٹریا ں چلانے والوں کی ملی بھگت اورسب سے بڑھ کرمتعلقہ سرکاری اداروں کی پراسرار اور مجرمانہ خاموشی کی وجہ سے نجی کلینکو ں میں مریضوں کاجوحشر نشرکیاجانے لگاہے وہ اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں اگرچہ یہاں بھی کئی درمند مسیحاﺅں کو استثنیٰ دیاجاسکتاہے مگر عام طورپر اب سفید پوش طبقہ کے لئے علاج کرانا ایک مہنگا عمل بن چکاہے جس کے لئے یا تو کچھ بیچنا پڑتاہے یا پھرمقروض ہوناپڑتاہے اس تمام صورت حال کے تناظر میں صوبائی حکومت کی طرف سے پورے صوبہ کی آبادی کو مفت علاج کی سہولت کی فراہمی ایک مستحسن اقدام ہی قراردیاجاسکتاہے اس سلسلہ میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے صحت کارڈ پلس سکیم کی صوبے کی سو فیصد آبادی تک توسیع کے تیسرے مرحلے کا باقاعدہ آغاز کردیا تیسرے مرحلے میں صوبے کے چھ اضلاع بشمول پشاور، چارسدہ ، نوشہرہ، مردان ،صوابی اور ہری پور کی تمام آبادی کو قومی شناختی کارڈ کی بنیاد پر صحت کارڈ پلس جاری کئے جارہے ہیں ان چھ اضلاع کی تقریباً ایک کروڑ چالیس لاکھ آبادی اس سہولت سے مستفید ہوں گی یاد رہے کہ اس سکیم کی توسیع کے پہلے دو مرحلوں میں ہزارہ اور ملاکنڈ ڈویژن کی سو فیصد آبادی کو صحت کارڈ پلس جاری کئے گئے ہیں اس سلسلہ میں وزیر اعلیٰ محمود خان نے اس سکیم کو موجودہ صوبائی حکومت کا ایک فلیگ شپ منصوبہ اور وزیر اعظم عمران خان کے وژن کے فلاحی ریاست کے قیام کی طرف اہم قدم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ صحیح معنوں میں عام آدمی کی فلاح کا منصوبہ ہے جو بلا امتیاز صوبے کے تمام باشندوں کو علاج معالجے کی مفت سہولت فراہم کررہے ہیں ان کاکہناہے کہ اس مہینے کے آخر تک اس پروگرام کے دائرہ کار کو پورے صوبہ کی سو فیصد آبادی تک توسیع دی جائے گی صوبائی حکومت اس اہم منصوبہ پر سالانہ 18 ارب روپے خرچ کررہی ہے صوبے کے وسیع تر مفاد میں کڈنی اور لیور ٹرانسپلانٹ کو بھی صحت کارڈ پلس سکیم میں شامل کیا جارہا ہے صوبائی حکومت کایہ بھی کہناہے کہ آئندہ بجٹ میں ضم شدہ قبائلی اضلاع کے عوام کو صحت کارڈ کے تحت دی جانے والی سالانہ کوریج چھ لاکھ روپے سے بڑھا کر دس لاکھ فی خاندان سالانہ کردی جائے گی تاکہ پورا صوبہ یکساں طور پر اس منصوبے سے مستفید ہوسکے صوبائی حکومت کایہ کہنا بھی بے جا نہیں کہ یہ منصوبہ صوبے کے عوام کو صرف علاج معالجے کی مفت سہولیات فراہم کرنے کا منصوبہ نہیں بلکہ یہ سماجی تحفظ کا ایک مکمل پیکج ہے جس سے صوبے میں غربت کی شرح کو کم کرنے اور لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے میں بھی مدد ملے گی اگردیکھاجائے تو صحت کارڈ پلس سکیم پاکستان میں اپنی نوعیت کے لحاظ سے پہلا منصوبہ ہے جو اس جنگ زدہ صوبہ کے عوام کے لئے شروع کیا گیا ہے اس حوالہ سے صوبائی حکومت کایہ کہنا بالکل درست ہے کہ یہ سماجی تحفظ کا ایک مکمل پیکج ہے اس منصوبہ میں کڈنی اور لیور ٹرانسپلانٹ کو بھی شامل کیا گیا ہے واضح رہے کہ مذکورہ دونوں علاج بڑے قیمتی ہے اور غریب تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے سچ یہ ہے کہ صحت کارڈ پلس کا اجراءہمارے صوبہ کے لئے ایک بہت بڑا اعزاز ہے اس سکیم میں صوبہ کے تمام لوگوں کا بلا امتیاز علاج معالجہ شامل ہے اس سکیم سے صوبہ کی ہر سیاسی ومذہبی جماعت کا ممبر مستفید ہوسکتا ہے ہمارے صوبہ کے عوام زیادہ تر غریب طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں یہ ذاتی خرچہ پر علاج معالجہ کی استطاعت نہیں رکھتے اس لئے موجودہ صوبائی حکومت نے سماجی تحفظ کی بنیاد پر سکیم شروع کرکے عوام کو عملاً یہ بتلادیا ہے کہ حکومت ان کی مالی مشکلات سے غافل نہیں حکومت کی یہ بھر پور کوشش ہے کہ لوگوں کی فلاح وبہبود کے حوالہ سے ضروری اقدامات اٹھائے صحت کارڈ پلس کا منصوبہ دوسرے صوبوں کے لئے ایک قابل تقلید مثال ثابت ہوگا اور ہمیں واثق یقین ہے کہ جلد یا بدیر دیگر صوبے اپنے ہاں اس سکیم کو شروع کریں گے اس لئے یہ سکیم خالصتاً غریب اور لاچار لوگوں کے لئے ہے پاکستان میں غریب عوام کے لئے علاج معالجہ ایک بڑا کٹھن مسئلہ ہے اکثر غریب لوگ علاج معالجہ کی استطاعت نہ رکھتے ہوئے مختلف بیماریوں سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضم قبائلی اضلاع میں بھی سالانہ کوریج چھ لاکھ سے بڑھا کر 10 لاکھ روپے فی خاندان کرنے کا حکم بھی جاری کردیا گیا ہے قبائلی اضلاع کو ترقی وخوشحالی پر بھی صوبائی حکومت خصوصی توجہ دے رہی ہے اور انہیں بندوبستی اضلاع کے ہم پلہ بنانے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ بعض معاملات اورپالیسیوں کے حوالہ سے تمام تر تحفظا ت کے باوجود ہم صوبائی حکومت کو اس احسن اور عوام دوست منصوبہ پر دلی مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ اس نے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا ہے جو ملک کے کسی صوبہ نے نہیں کیا ہے اس سلسلہ میں وزیر اعلیٰ محمود خان کے ساتھ ساتھ وزیرصحت تیمور سلیم جھگڑا کی کوششوں کاذکر نہ کرنایقینا زیادتی ہوگی ان کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے ہی اس سلسلہ میں اہم پیشرفت ہوتی آرہی ہے اس ضمن میں ہم صوبہ کی اپوزیشن سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ وہ حکومت کے عوام دوست منصوبوں میں حکومت کا ساتھ دیں اس حوالہ سے اپنی قابل عمل تجاویز بھی حکومت کو دے تاکہ حکومت اور اپوزیشن مل کر اس صوبہ اور اس کے عوام کی خدمت کرسکیں۔