پشاور کہانی: گلی گلی تجاوزات

”ہے خواب کہ اِک شہر جو آسودہ بہت ہے.... کیا کیجئے تعبیر جو آلودہ بہت ہے“ بیدار فکرونظر ضروری ہے۔ پشاور کی کہانی میں ”گلی گلی تجاوزات‘ ‘اِس قدر کثیرالجہتی (گہرا و پیچیدہ) مسئلہ ہے کہ اِس کی نہ تو کوئی ایک شکل ہے اور نہ ہی کوئی ایک حل۔ بنیادی بات وہ عمومی و خصوصی رویئے ہیں جن پر ’پشاور شناسی‘ اور ’پشاور فہمی‘ غالب نہیں اور کسی شہر کی اِس بڑی ’بدقسمتی‘ کوئی دوسری نہیں ہو سکتی کہ اُس کے رہنے والے ہی ’قدرشناس‘ نہ ہوں۔ توجہ طلب ہے کہ ’پاکستان سٹیزن پورٹل نامی موبائل فون ایپ‘ کے ذریعے وزیراعظم پاکستان کے دفتر تک پہنچائی گئی ایک شکایت (KP08012-87818682) کا تعلق پشاور شہر کی حدود میں اُن مستقل تجاوزات سے ہے‘ جن کے ذریعے سرکاری اراضی قبضہ کر لی گئی ہے اور اگر اِن انتہائی تجاوزات کے خلاف کاروائی نہ کی گئی تو اندیشہ ہے کہ پختہ تعمیرات کے جاری سلسلے میں اِن پر قبضہ بھی مستقل ہو جائے گا اور بعدازاں اِن کی واگزاری بالکل اُسی طرح ممکن نہیں رہے گی جس طرح فصیل شہر اور اِس کے دروازے اِینٹ اِینٹ کر کے قبضہ کر لئے گئے ہیں ‘ اجتماعی بے حسی کی اِس سے زیادہ ’عمدہ مثال شاید ہی کوئی دوسرا ہو۔ وزیراعظم پاکستان تک رسائی کی اُمید کے ساتھ ”مفاد عامہ“ سے تعلق رکھنے والی اِس شکایت میں یونین کونسل گنج اور یونین کونسل کریم پورہ کے سنگم پر واقع ’گورگٹھڑی‘ کی عمارت اور اِس سے ملحقہ آبادی کے مسائل کو موضوع بنایا گیا ہے۔ ایک مربع کلومیٹر پر پھیلی گورگٹھڑی صرف پشاور ہی نہیں بلکہ پاکستان کا ایسا منفرد مقام ہے جس کی ظاہری خوبصورتی اور اہمیت و افادیت متقاضی ہے کہ اِس عمارت کے اردگرد آلودگیوں کا باعث بننے والے محرکات اور بالخصوص تجاوزات کا خاتمہ کیا جائے۔ پاکستان کے اِس پہلے ’آرکیالوجیکل پارک (آثار قدیمہ کے مجموعے)‘ کو عالمی شہرت حاصل ہے لیکن اِس کے چاروں اطراف تجاوزات کے سبب نہ صرف ’قدیمی و سرتاج عمارت‘ کے لئے خطرات پیدا ہوئے ہیں بلکہ گورگٹھڑی کے اطراف میں رہنے والے بھی مشکلات سے دوچار ہیں۔گورگٹھڑی کے مشرق میں طالبات کی تعلیم کا ادارہ (بیگم شہاب الدین ہائر سیکنڈری سکول)‘ مغرب میں بازار کلاں (محلہ سیٹھیان‘ گھنٹہ گھر)‘ شمال میں محلہ شاہ معصوم اور جنوب میں سیّد ضیاءجعفری روڈ گنج گیٹ اور لاہوری گیٹ کو ملاتا ہے۔ اِسی روڈ کے کنارے جامع مسجد سے محلہ تیلیان تک قریب پانچ سو میٹر پٹی پر سرکاری اراضی (سڑک کے حصوں) پر قبضہ کیا گیا ہے۔ جہاں کبھی پودے اور سبزہ زار ہوتے تھے ۔ قبضہ مافیا کا طریقہ واردات یہ ہے اُور جس کا استعمال قبرستانوں کی اراضی بھی ہتھیانے کے لئے کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ کسی مقام پر سب سے پہلے چھوٹی سی مسجد یا جنازہ گاہ تعمیر کی جاتی ہے‘ پھر اُس کے ساتھ وضوخانے اور مدرسہ بنا کر پیش امام کی رہائشگاہ بنا دی جاتی ہے۔ اِس کے بعد مسجد کے جاری اخراجات کے لئے چند دکانیں پر مشتمل مارکیٹ اور پھر اُس مارکیٹ کی پشت پر آبادی تاحد نظر پھیلتی چلی جاتی ہے ۔ تعجب خیز ہے کہ پاکستان سٹیزن پورٹل کے ذریعے درج کروائی گئی ’مفاد عامہ کی شکایت‘ سب سے پہلے (آٹھ جنوری دوہزاراکیس) ’ڈپٹی کمشنر‘ پشاور کو ارسال کی گئی جس نے (آٹھ جنوری ہی کے روز) مذکورہ شکایت ’ٹاو¿ن ون‘ کے میونسپل آفسیر (ٹی ایم اُو) کو بھیج دی۔ جنوب مشرق ایشیا ءکا قدیم ترین اور زندہ تاریخی مقام ہونے کا منفرد اعزاز اپنی جگہ لیکن ”پشاور“ اپنی جگہ ایک شہر بھی تو ہے اور اگر اِس ”پھولوں کے شہر“ کے ماضی کو ایک طرف رکھ کر اِس سے صرف شہر کی صورت ہی برتاو¿ کیا جائے تب بھی خیروخوبیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ بنیادی طور پر ”شہر“ کا لفظ (صیغہ) اُس جگہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جہاں ’تہذیب و ترقی‘ ساتھ ساتھ (شانہ بشانہ) دیکھے جا سکیں۔ ذمہ دار رویئے غالب ہوں۔ تہذیب کسی شہر کا اثاثہ اور ترقی اُس کے فیصلہ سازوں اور رہنے والوں کی نفاست اور ذوق کا بیان ہوتی ہے۔ پشاور کا جس پہلو اور جس صورت سے بھی جائزہ لیا جائے اور یہاں کے مسائل و مشکلات کی جس قدر بھی الگ الگ فہرستیں مرتب کی جائیں تو ہر فہرست میں تجاوزات کا ذکر ملے گا‘ جن کے باعث نہ صرف ہر قسم کی آمدورفت (ٹریفک) کی روانی متاثر ہے بلکہ نکاسی¿ آب کا نظام بھی مفلوج ہونے کی حدوں کو چھو رہا ہے اور کئی علاقے ایسے ہیں کہ جہاں سے چند منٹ کی بارش کا پانی نکاس ہونے میں کئی کئی دن اور ہفتے لگ جاتے ہیں۔ پشاور توجہ طلب ہے۔ مستحق ِتوجہ ہے۔ مستحق ِاحترام ہے اور مستحق ِمعافی بھی ہے۔