زندہ دلان پاکستان۔

برصغیر میںقدیم یونانی تہذیب و ثقافت کے پیروکار چترال میں آباد کالاش قبیلے کی رسومات انوکھے اور منفرد ہیں۔ وہ ہر موسم کی آمد پر خوشیاں مناتے ہیں۔بہار کی آمد پر بھی جھوم اٹھتے ہیں فصلوں کی کٹائی اور پھلوں کا ذخیرہ کرنے کا بھی جشن مناتے ہیں۔ کسی کی وفات پر دھاڑیں مار کر بین کرنے کے بجائے متوفی یا متوفیہ کی خوبیوں کے گیت گا کر رقص کرتے ہیںہمیں یہ خوش فہمی تھی کہ برے وقت میں خوشیاں مناکر اپنے غم کو بھلانے والا کالاش قبیلہ دنیا کا واحد قبیلہ ہوگا۔ لیکن حالیہ ملک گیر پاور بریک ڈاﺅن کے دوران پوری پاکستانی قوم نے جس بزلہ سنجی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ ہم بحیثیت قوم بڑے زندہ دل ثابت ہوئے ہیں اس قوم کو زندہ دلان پاکستان کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا۔ ملک بھر میں بجلی کے طویل ترین بریک ڈان کے بعد سوشل میڈیا پر بلیک آﺅٹ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ملک تاریکی میں ڈوبنے کے ابتدائی نصف گھنٹے کے اندر سوشل میڈیا پر5 کروڑ میمز شیئر کی گئیں کسی نے دل کی بھڑاس نکالنے کےلئے ٹوئٹر کا سہارا لیا،کسی نے فیس بک اور انسٹاگرام کے ذریعے دلچسپ لفظوں سے گھٹا ٹوپ تاریکی میں روشنی پھیلانے کی کوشش کی ۔کسی نے دانستہ طور پر ملک میں مارشل لاءلگانے کی افواہ پھیلا کر اپوزیشن کو خوش اور حکومت کے حامیوں کی دل آزاری کی کوشش کی تو کسی دل جلے نے لکھا کہ میاں صاحب نے اپنے دور میں بنائی گئی بجلی سسٹم سے واپس نکال لی ہے۔ایک ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ وزیراعظم عمران خان نے سب کی ایک ساتھ بجلی بند کر کے امیر اور غریب کا فرق مٹانے کا اپنا وعدہ پورا کردکھایا ۔ کسی نے اپوزیشن کےلئے نرم گوشہ رکھنے والے کالم نگاروں کانام استعمال کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ حکومت نے بجلی بندکرکے انہیں کالم لکھنے سے باز رہنے پر مجبور کرنےکی ناکام کوشش کی ہے۔پنجاب حکومت کے ترجمان نے حکومت مخالف ٹوئٹس کے جواب میں لکھا کہ کیسے اندھیرا ہوتے ہی ان لوگوں کے اندر کے جذبات ، خواہشات اور احساسات باہر آئے ہیں۔ انکی بھی کیا زندگی ہے ہمیشہ برے وقت کی خواہش کرتے ہیں۔ہر منظر کو منفی انداز میں دیکھنے والے نا مراد ہی رہیں گے۔سوشل میڈیا صارفین کی دیکھا دیکھی سیاست دان بھی بزلہ سنجی پر اتر آئے کسی نے کہہ دیا کہ نواز شریف نے اتنی بجلی بنائی تھی کہ موجودہ حکومت سے اس کوسنبھالا نہیں گیا۔ حکومتی ترجمانوں کا کہنا تھا کہ بجلی بنانے والوں نے اسے عوام تک پہنچانے کا نہیں سوچا۔ سسٹم کو اپ گریڈ کرنے کی انہیں سمجھ نہیں آئی جس کی وجہ سے بریک ڈاﺅن ہوگیا۔ حکومت کی رخصتی کےلئے دور دور کی کوڑیاں لانے والوں کو یہ موقع غنیمت لگا اور انہوں نے مطالبہ داغ دیا کہ پاور بریک ڈاﺅن پر حکمرانوں کو اپنی نااہلی تسلیم کرتے ہوئے مستعفی ہوجانا چاہئے۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس ملک میں کسی غلط کام کی ذمہ داری قبول کرنےکی روایت کبھی نہیں رہی۔ایک بھیانک ٹرین حادثے کے بعد جب وزیرریلوے سے پوچھا گیا کہ محکمے کے سربراہ کی حیثیت سے وہ اس المناک سانحے پر مستعفی کیوں نہیں ہو رہے؟تو وزیر موصوف کا جواب تھا کہ حادثے کا شکار ہونےوالی ریل گاڑی میں تو نہیں چلارہا تھا۔ میری کیا غلطی ہے کہ مستعفی ہوجاﺅں؟بات وزیرصاحب کی بھی غلط نہیں ہے۔ اسمبلیوں تک پہنچنے کےلئے ہمارے سیاست دانوں کو کیا کیا پاپڑ نہیں بیلنے پڑتے۔ کوئی احمق ہی ہوگا جو وزارت کی پرکشش کرسی کو ٹھوکر مارکر دربدر ہوجائے ۔ان کا یہ موقف بھی وزن رکھتا ہے کہ غلطیاں انسان سے ہی ہوتی ہیں آئندہ غلطی نہ کرنے کا وعدہ کرکے انسان توبہ کرلے تو خدا بھی معاف کردیتا ہے۔ اور پھر اس کی کیاضمانت ہے کہ کوتاہی کا اعتراف کرکے مستعفی ہونے کے بعد عوام اسے بڑاپن قرار دےکر معاف کرینگے اور اگلے الیکشن میں اسے دوبارہ منتخب کرینگے۔یہ سیدھی سی بات ہمارے اپوزیشن اتحاد کے قائدین کو شروع میں سمجھ نہیں آئی اور انہوں نے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کا عجلت میں اعلان کر دیا۔ لیکن ان کے منتخب ارکان نے استعفے دینے سے صاف انکار کردیا تو انہوں نے بھی سینٹ اور ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کرکے اپوزیشن اتحاد کے صدر کا دل توڑ دیا۔اس صورتحال پر مولانا صاحب کو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہئے۔ دل آزاری کرنے والوں کو ایک نہ ایک دن اپنے کئے کی سزا بھگتنی ہی ہوگی۔