خرابی وہاں پیدا ہوتی ہے جب سیاسی جماعتیں آپسی اختلافات یا قومی مسائل کے حوالے سے ایک دوسرے کو قائل اور پارلیمان (اِجتماعی دانش) پر بھروسہ کرنے کی بجائے ”اِحتجاج“ کی راہ اِختیار کرتی ہیں۔ اِس مخالفت برائے مخالفت کا ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ برسراقتدار سیاسی جماعت کو اپنی آئینی مدت کے دوران اپنے انتخابی منشور پر عمل کرنے کا موقع نہ دیا جائے اور ملک میں ایسا سیاسی و سماجی عدم استحکام پیدا کیا جائے جس سے عام آدمی (ہم عوام) کو درپیش مسائل کی شدت میں اضافہ ہو۔ المیہ ہے کہ کسی سیاسی جماعت کی کامیابی اُس کی مدمقابل جماعت کی ناکامی (کارکردگی کے خسارے) میں تلاش کی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماضی و حال کے کسی بھی حکمران سے اُس کی کارکردگی بابت سوال کریں تو وہ ماضی کے واقعات پر مبنی گردان سنانا شروع کر دیتا ہے اُور یوں ایک سیدھا سادا سوال ضمنی سوالات میں گم (دفن) ہو جاتا ہے۔ سیاسی مخالفت برائے مخالفت کے اِس منظرنامے کا ہر رنگ پھیکا ہونے کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے کہ سیاست عوام کے مسائل حل کرنے کا نام نہیں رہا لیکن حکمرانی کو اپنا حق سمجھنے والی سیاسی اشرافیہ کی اقتدار کےلئے رسہ کشی نے عجیب و غریب صورتحال پیدا کر رکھی ہے ۔کسی قومی ادارے کی سیاست میں مداخلت ثابت کرنے کے لئے ثبوت تو فراہم نہیں کئے جاتے لیکن اُسے مسلسل دباو¿ میں رکھنے کے لئے ’الفاظ بدل بدل کر‘ الزامات عائد کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے‘ مولانا فضل الرحمان نے گیارہ جنوری کی شام بٹ خیلہ (مالاکنڈ) میں ’پی ڈی ایم‘ جلسے سے خطاب کر رہے تھے۔ جس میں اُنہوں نے نیب کی جانب سے اپنے خلاف مقدمات کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اُور کہا کہ ”وہ نیب کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کریں گے!“ پی ڈی ایم قائدین نے’جولائی 2018ئ‘ کے عام انتخابات میں ہوئی مبینہ دھاندلی اُور تحریک انصاف کی ’فارن فنڈنگ‘ کو موضوع بناتے ہوئے ’پی ڈی ایم‘ میں شامل گیارہ جماعتوں نے اُنیس جنوری کے روز الیکشن کمیشن دفتر کے سامنے مظاہرہ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے تاکہ قومی اِداروں پر دباو¿ برقرار اور احتجاج کی سیاست کا سلسلہ جاری رہے۔بٹ خیلہ (مالاکنڈ) میں ’پی ڈی ایم‘ کا جلسہ اِس سے قبل خیبرپختونخوا میں ہوئے اجتماعات سے مختلف تھا کہ اِس میں ہونے والی تقاریر کا لب و لہجہ زیادہ تلخی بھرا محسوس ہوا اور قائدین نے اپنے خطابات (اقوال زریں) میں قومی اداروں کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے احتیاط (رکھ رکھاو¿) کو زیادہ اہمیت بھی نہیں دی۔ بدگمانیاں عام کرنے کے اِس پورے ماحول میں حزب اختلاف کا ہر رہنما اپنی اپنی سمجھ بوجھ اور قد کاٹھ کے مطابق حصہ لے رہا ہے لیکن سب ایک دوسرے کے مو¿قف سے متفق ہیں تاہم ایک ہی بات کوئی سخت تو کوئی نرم لہجے میں کرتا ہے جیسا کہ بلاول بھٹو نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”ملک پر نااہل اور ناجائز حکمران مسلط ہیں۔“ بلاول بھٹو کے ہر خطاب کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ وہ عوام کو ’بغاوت پر اُکسانے‘ کے لئے کوئی نہ کوئی جملہ ضرور ادا کرتے ہیں جیسا کہ اُنہوں نے کہا کہ ”عوام سے مل کر اِن کٹھ پتلیوں کو بھگائیں گے‘ ان کا خاتمہ کریں گے‘ یہاں عوامی راج قائم کریں گے۔ کسی آمر کے آگے سر جھکایا ہے اور نہ ہی کسی کٹھ پتلی کے آگے سر جھکائیں گے۔ تبدیلی والے جھوٹ بولتے ہیں‘ انہوں نے (عوام سے کئے ہوئے) وعدے پورے نہیں کئے بلکہ تبدیلی کا نعرہ لگانے والے دھوکے باز ہیں‘ جنہیں حکومت چلانی نہیں آتی لیکن تبدیلی کا نعرہ لگا کر عوام کو دھوکا دیا ہے۔“ بلاول بھٹو نے جس ایک بات پر افسوس کا اظہار کیا وہ یہ تھی کہ ”پاکستان میں آج تک کسی شہید کو انصاف نہیں ملا۔ دہشت گردوں کو قانون کے دائرے میں نہیں لایا جا سکا“ اور ایسا نہ ہونے کی وجہ سے وہ شہیدوں اور ان کے لواحقین سے شرمندہ ہیں۔ شاید بلاول بھٹو کو یاد نہیں ہوگا جب اُن کی جماعت وفاق میں حکمراں تھی تو اُس وقت بھی انصاف کی فراہمی کی صورتحال زیادہ مختلف نہیں تھی ۔‘ حزب اختلاف کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں (پیپلزپارٹی اور نواز لیگ) کی کارکردگی اور طرزحکمرانی ایک جیسی ہے جس میں عوام کے مسائل سے زیادہ اختیارات‘ اقتدار اور قومی وسائل کے زیادہ سے زیادہ حصول کی کوششیں (توجہات مرکوز) مختلف صورتوں میں جاری رہتی ہیں۔