ٹیکسوں ، محصولات اور دیگر ذرائع سے قومی خزانہ بھرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریونیوکے سابق چیئرمین شبر زیدی نے اعتراف کیا ہے کہ وہ ایف بی آر سے کرپشن ختم کرکے اسے شفاف ادارہ بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ وزیراعظم نے ان سے جو توقعات وابستہ کی تھیں ان پر پورا نہ اترنے کا انہیں افسوس ہے۔ اپنی کتاب میں شبرزیدی کا کہنا ہے کہ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ اپنی مرضی سے ٹیکس نہیں دیتا۔اس کےلئے ریاست کے پاس رٹ ہوتی ہے۔اگر ریاست ٹیکس کی رٹ قائم کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے ہاتھ سخت کرنا پڑیں گے۔بدقسمتی سے پاکستان میں کوئی بھی شعبہ ٹھیک کام نہیں کر رہا۔سابق چیئرمین ایف بی آر نے انکشاف کیا کہ پاکستان میں جو مشینری درآمد کی جاتی ہے اس پر لیا جانے والا کمیشن باہر کے ممالک میں رکھا جاتا ہے۔آج بھی پاکستانیوں کے 150ارب ڈالر باہر کے بینکوں میں پڑے ہیں۔آج بھی سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر غیر قانونی طور پر باہر جا رہا ہے۔پاکستان میں بہت سے لوگوں کے لندن اور دبئی میں فلیٹس ، کمپنیاں اورادارے موجود ہیں،سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی عدالت میں کھڑے ہو کر میں نے کہا تھا کہ باہر جو پیسہ گیا اسے واپس نہیں لایا جا سکتا۔ ضیاءالحق اور نواز شریف کے دور میں پیسہ غیر قانونی طور پر پاکستان سے باہر جانا شروع ہوا۔ کرپشن کو ریاست اور نظام نے پروان چڑھایا۔اس ملک میں ایسے کاروبار بھی ہیں جو کاغذات پر موجود ہی نہیں لیکن چل رہے ہیں مافیاز ہر شعبے میں موجود ہیں، مختلف کاروبار رجسٹرڈ ہی نہیں جس کی وجہ سے بھی ٹیکسوں کی وصولی میں مسائل ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کرپشن کا خاتمہ اور نظام کو شفاف بنانا چاہتے ہیں مگر ان کے راستے میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہیں۔سابق چیئرمین ایف بی آرنامور ماہر معاشیات ہیں وہ مختلف بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ وابستہ رہے ہیں پاکستان کی معیشت،اداروں میں مالی بدعنوانیوں اور مافیاز کی ریشہ دوانیوں کے حوالے سے ان کے انکشافات بلاشبہ مستند ہیں۔قومی امانت میں خیانت، چوری، منی لانڈرنگ ، بین الاقوامی معاہدوں میں کک بیکس اور کمیشن لینے کا رواج جمہوری حکومتوں نے ہی پروان چڑھایا۔ جب حکومت اور ریاستی اداروں کے ارباب اختیار کوکرپشن کی لت پڑگئی تو اس سے ریاستی اداروں میں کام کرنے والوں کو بھی شہ مل گئی آج صورتحال یہ ہے کہ ریاست کا کوئی بھی ادارہ کرپشن سے پاک نہیں رہا۔سرکاری دفتروں میں نوٹوں کے پہیے لگائے بغیر فائل الماری سے میز تک نہیں آتی۔ ترقیاتی منصوبوں کی منظوری سے پہلے حکام اپنے حصے کا کمیشن وصول کرتے ہیں طب اور درس و تدریس جیسے مقدس پیشے بھی کرپشن سے پاک نہیں رہے۔ بعض ڈاکٹر بھی اپنے مریضوں کو وہی ادویات لکھ دیتے ہیں جس کے بدلے ادویہ ساز کمپنیاں اسے بیرون ملک سیروتفریح کے ٹکٹ، گاڑیاں، بنگلے اور قیمتی تحائف دیتی ہیں۔ملک کا کونسا محکمہ ہے جہاں رشوت کے بغیر لوگوں کا جائزکام ہوتا ہے۔ صرف سرکاری اہلکار ہی نہیں، معاشرے کا ہر طبقہ کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے۔جس کو موقع ملتا ہے وہ کرپشن کے ذریعے مال بنانا اپنا حق سمجھتا ہے۔ اصلی مال کے پورے دام لے کر نقلی مال فروخت کرنا بھی تو کرپشن ہے۔اپنی ڈیوٹی کے اوقات میں کام چوری کرنا بھی بدعنوانی ہے۔ کنڈے لگاکر بجلی چوری کرنا بھی قومی امانت میں خیانت ہے۔ بجلی استعمال کرکے بل نہ دینا بھی کرپشن ہے۔ کمزور لوگوں کی جائیداد دھوکے سے ہتھیانا بھی جرم ہے۔ ہم اگر اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تو ہم میں سے 99فیصد لوگ جھوٹے، ریاکار، خیانت کار ، بددیانت، دھوکے باز، کینہ پرور اور بدعنوان ہیں۔ پھر ہم کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ ہمارا حکمران دیانت دار، امانت دار، خداترس، انصاف پسند اور عادل ہوگا۔اپنے بچوں کو حرام کا نوالہ کھلانے کے بعد ان سے نیکی، راست بازی، دیانت داری اور فرمانبرداری کی توقع رکھنا خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے؟