غضب خداکا ایسے ایسے لوگ بھی دانشور اورسیاسی تجزیہ نگاربن چکے ہیں جن کو دس پندرہ سال سے پہلے کی ملکی سیاست کاعلم تک نہیں یہ لوگ سوشل میڈیا کے دورکی پیداوار ہیں اوراس وقت بزعم خود پاکستانی سیاست کے نباض بننے کی کوششوں میں مصروف ہیں ایسے ہی فیس بکی دانشوروںکی وجہ سے اس وقت سوشل میڈیا پر جو اودھم مچاہواہے اس سے ہماری اخلاقی پستی اورسیاسی عدم بلوغت کااندازہ بخوبی لگایا جاسکتاہے اس تمہید کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اس وقت دنیائے سوشلستان کے بعض جغادریوں کی طرف سے مسلسل جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی سیاست اور سیاسی زندگی کو نشانہ بنایاجارہاہے ان کی طرف سے اب تویہا ں تک کہاجانے لگاہے کہ مولانا فضل الرحمان آج تک تمام حکومتوں کاحصہ رہے ہیں ان کاخیال ہے کہ مولانا فضل الرحمان پہلی بار چونکہ اپوزیشن میں ہیں ا سلئے حکومت کے خلاف سب سے زیادہ سرگرم بھی وہی ہیں ایسے لوگوں کی سیاسی دانش کو دورسے ہی سلام کرناچاہئے مگر صرف یہ کافی نہیں نوجوان نسل کے سامنے تاریخی حقائق سامنے لانا بھی ضروری ہے تاکہ ان کو بھی ر ائے قائم کرنے میں آسانی رہے اوریوں ہی سیاسی لاعلمی کی تارکیوں میں ٹامک ٹوئیاں نہ مارتے ہیں ساتھ ہی سیاسی ریکارڈ کو درست رکھنا اورپیش کرنا بھی ضروری ہے جہاں تک مولانا فضل الرحمان کاتعلق ہے تو ان کی پالیسیوں سے اختلاف رکھاجاسکتاہے بعض فیصلوں پر تنقید بھی کی جاسکتی ہے کچھ معاملات پر اختلاف رائے بھی رکھا جاسکتاہے مگریہ کہناکہ وہ ہر حکومت کاحصہ رہے ہیں سیاسی لاعلمی کی انتہاہے مولانا فضل الرحمان جب اپنے والد مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد سیاست میں آئے تو اس وقت جنرل ضیاءالحق کامارشل لاءپورے عروج پرتھا سیاسی میدان کے نووارد فضل الرحمان کے پاس دو راستے تھے یا تو حکومت کی حمایت کرکے مراعات سمیٹ لیتے یا پھر اپوزیشن جماعتوںکے اتحاد کاحصہ بن جاتے ان دنوں تحریک بحالی جمہوریت یعنی ایم آرڈی کے نام سے ایک اتحادبن رہاتھا اس اتحاد میں شمولیت کامطلب فوجی حکومت کی ناراضگی اور اس کے بدلے میں قید وبند اورسیاسی پابندیوں کو گلے لگانا تھا نوجوان فضل الرحمان نے سیاسی زندگی کاپہلا سفرہی اپوزیشن اتحاد کاحصہ بن کر شروع کیا ایم آر ڈی میں پیپلز پارٹی ،اے این پی ،نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اوردیگر کئی جماعتیں شامل تھیں جے یو آئی بھی اس اتحاد کاحصہ بن کر میدان میں کود پڑی اس وقت کی سینئر سیاسی قیادت کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پروقت گزار انہوں نے مختصر عرصہ میں ہی بہت زیادہ سیاسی تجربہ حاصل کرلیا وقت گزرتاگیا 1988ءمیں الیکشن ہوئے پیپلز پارٹی برسر اقتدار آگئی جبکہ مولانا فضل الرحمان نے اپوزیشن میں بیٹھنے کافیصلہ کیا یوں پہلی بار منتخب ہوکر وہ اپوزیشن میں شامل ہوئے 1990ءمیں پھر الیکشن ہوئے میاں نواز شریف وزیر اعظم بن گئے جبکہ مولانا فضل الرحمان پھر اپوزیشن کا حصہ بنے 1993 کے انتخابات کے بعدجے یو آئی پیپلز پارٹی کی اتحاد ی ہونے کے باوجود حکومت کاحصہ نہ بنی البتہ مولانا فضل الرحمان قومی اسمبلی کی خارجہ کمیٹی کے چیئر مین بن گئے اس کو بعض لوگ حکومت کاحصہ بننا سمجھتے ہیں بعد ازاں 1997ءمیں انتخابات ہوئے تو مولانا فضل الرحمان ایک بارپھر اپوزیشن کےساتھ مل گئے اور حکومت کےخلاف بھرپور تحریک چلانے لگے اسی دوران پرویز مشرف کامارشل لاءنافذ ہوگیا پھر جب 2001 کے الیکشن ہوئے تو جے یو آئی اس وقت ایم ایم اے کاحصہ تھی ایم ایم اے نے خیبرپختونخوا میں توحکومت بنائی مگر مرکز میں اپوزیشن میں بیٹھ گئی اور مولانا فضل الرحمان اپوزیشن لیڈر بن گئے پانچ سال بعد پھر جب 2008 میں الیکشن ہوئے تو جے یو آئی پہلی بار حکومت کاحصہ بنی اس وقت مولانا فضل الرحمان آصف علی زرداری کے ساتھ اپنی شرائط پر ہم سفر بن گئے تاہم ڈھائی سال کے بعد جب حکومت نے ان کےساتھ کیے گئے معاہدے پرعملد رآمد نہیں کیا تو مولانا فضل الرحمان حکومت چھوڑ کر اپوزیشن میں بیٹھ گئے اورحکومت کو ٹف ٹائم دیئے رکھا 2013ء کے انتخابات کے بعد جے یو آئی فوری طورپر کوئی فیصلہ نہ کرسکی مسلسل مذاکرات کے بعد اس نے نواز شریف حکومت کاحصہ بننے کافیصلہ کیا اوریہ پہلی حکومت تھی جس میں جے یو آئی پانچ سال تک حکومت کاحصہ رہی اگرچہ حکومت میں شمولیت اور جے یو آئی کے وزراءکی حلف برداری اوربعد ازاں ان کے محکموں کے اعلان میں کم وبیش ایک سال کاعرصہ لگ گیاتھا تاہم اس وقت وفاقی حکومت کاحصہ بننا جے یو آئی کی سیاسی مجبوری اور ضرورت تھی کیونکہ صوبہ میں پی ٹی آئی برسراقتدار آچکی تھی اور جے یو آئی کایہی کہنا تھا کہ اس کامینڈیٹ یہاں چرالیاگیاہے جب 2018ءمیں الیکشن ہوئے تو صورت حال سب کے سامنے ہے مولانا فضل الرحمان ایک بارپھر اپوزیشن میں ہیں یوں اگردیکھا جائے تو اپنی اکتیس سالہ سیاسی زندگی میں مولانا فضل الرحمان عملی طورپر محض سات ساڑھے سات سال ہی حکومت کاحصہ رہے باقی عرصہ وہ اپوزیشن میں شامل رہے یہ ان کی بہت بڑی کامیابی ہے کہ جے یو آئی جیسی سخت گیر نظریات کی حامل سمجھی جانے والی مذہبی جماعت کو مقبول عوامی قوت میں تبدیل کردیاہے اور گذشتہ چند سال کے دوران جس طرح ان کی جماعت نے پنجاب سندھ کراچی میں بہت بڑے بڑے عوامی اجتماعات کیے اورپھر اسلام آباد میں آزاد ی مارچ کے نام سے دھرنا دیا اس نے یقینا ان کی جماعت کو ملک کی بڑی سیاسی قوتوں کی صف میں لاکھڑا کردیاہے اس وقت اگر اپوزیشن جماعتیں پی ڈی ایم کے نام سے ایک سیاسی اتحاد کاحصہ ہیں تو اس کاکریڈٹ بھی بہرحال مولانا فضل الرحمان ہی کو جاتاہے مولانا کے حوالہ اس وقت کئی اوراہم امور بھی ذہن میں ہیں مگر طوالت کی وجہ سے فی الوقت اتناہی باقی پھرکسی وقت ۔