حکومت نے عالمی بینک سے ساٹھ کروڑ ڈالر قرض حاصل کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا ہے۔ اِس رقم سے ’جدید ہائبرڈ سوشل پروٹیکشن سکیم‘ نامی حکمت عملی کو نافذ کیا جائے گا جس کا بنیادی مقصد غربت کا شکار اور کم آمدنی رکھنے والے طبقات کو سہارا دینا ہے۔ اِس سلسلے میں ورلڈ بینک کی جانب سے تفصیلات جاری کی گئی ہیں جن کے مطابق مذکورہ منصوبہ پاکستان کو بحران سے بچانے کےلئے ”معاشرتی تحفظ“ فراہم کرے گا اور آمدنی کے لحاظ سے ملک کے متوسط طبقے کی مدد کرےگا۔ اِس حکمت عملی کا مرکزی خیال ”امدادی بچت سکیم“ ہے۔ اِس حکمت عملی کے تحت ایک خاص مدت کے لئے بچت سکیم متعارف کروائی جائے گی اور انفرادی طور پر کی جانے والی بچت کو جلد واپس لینے پر اگرچہ جرمانہ یا پابندی عائد نہیں ہو گی تاہم کم سے کم وقت کا تعین کیا جائے گا جس سے قبل سرمایہ کاری کے کسی بھی شراکت دار کو اپنی بچت تک رسائی نہیں ہوگی۔ اپنی نوعیت کی اِس منفرد ’امدادی بچت سکیم‘ کے لئے عالمی بینک سے مالی و تکنیکی معاونت طلب کرنے اور غربت و افلاس میں کمی کے ایک اور تجربے سے گزرنے سے پہلے ضروری تھا کہ ماضی میں اِس نوعیت کی حکمت عملیوں اور اُن کے نتائج کا جائزہ لیا جاتا۔ قبل ازیں ہائبرڈ سکیم کے تحت بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام متعارف کروایا گیا جس سے فائدہ اٹھانے والوں کے ایک گروہ کےلئے امدادی بچت سکیم متعارف کروانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے اور اگر یہ تجربہ کامیاب رہا تو اِسے آبادی کے زیادہ بڑے حصے کےلئے توسیع دی جائے گی۔ ورلڈ بینک کے دستاویز میں کہا گیا ہے کہ یہ پروگرام معاشرتی تحفظ کو بڑھائے گا۔ سوشل رجسٹری اور بائیو میٹرک ادائیگی کے نظام سے استفادہ کرتے ہوئے مستحق آبادی کی ضروریات پوری کی جائیں گی اور معاشرتی تحفظ کے نظام کی مجموعی صلاحیت میں اضافہ حکمت عملی کا خاص جز ہے۔برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ عالمی مسائل میں غذائی عدم تحفظ اور وباو¿ں کا شمار کرتے ہوئے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی صورتحال پر تشویش کا اظہار ہو رہا ہے کیونکہ کورونا وبا کے سبب غذائی عدم تحفظ کی شدت اور غربت میں اضافہ ہوا ہے۔ ادارہ¿ شماریات کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 40 فیصد پاکستانی خاندان کسی نہ کسی صورت (کم یا زیادہ) غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں اور چونکہ چالیس فیصد پاکستانیوں کو اُن کی یومیہ جسمانی ضرورت کے مطابق اشیائے خوردونوش نہیں مل رہیں اور اِس صورتحال میں کورونا وبا کی شدت نے مزید اضافہ کر دیا ہے‘ جس کی وجہ سے آمدن کے لحاظ سے غریب و متوسط طبقات بالخصوص جسمانی‘ ذہنی اور مالی حالت متاثر ہوئی ہے۔ کورونا وبا کا یہی سب سے خطرناک پہلو ہے کہ اِس کی وجہ سے بھوک و افلاس میں اضافہ ہوا ہے۔کسی زرعی معیشت و معاشرت میں خوردنی اجناس کی کمی (قلت) اِس بات کا ثبوت (اظہار) ہے کہ زرعی ترقی اور سرپرستی سے متعلق حکومتی فیصلہ ساز اپنے منصب و ذمہ داریوں سے انصاف نہیں کر رہے۔ کورونا وبا کے پہلے دورانیئے (پہلی لہر) کے دوران لاک ڈاو¿ن کے سبب بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوا جبکہ دوسرے دورانیئے (دوسری لہر) کے جاری عرصے میں اگرچہ لاک ڈاو¿ن نہیں لیکن کاروباری و معاشی سرگرمیاں معمول پر نہیں آئیں اُور محنت کش‘ مزدور کسان طبقات سے تعلق رکھنے والے بدستور متاثر ہیں جو اِس حقیقت کا عکاس ہے کہ حکومت کی جانب سے امداد اُور معاشی بحالی کے لئے دی جانے والی سرپرستی و تعاون کے خاطرخواہ بہتر نتائج برآمد نہیں ہو رہے۔ کیا یہ بات اپنی جگہ تشویشناک (لائق توجہ) نہیں ہے کہ پاکستان کا نام اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو دنیا کی دو تہائی ایسی آبادی رکھتے ہیں جنہیں بنیادی ضرورت کی اشیائے خوردونوش تک میسر نہیں ہیں۔پاکستان کی ایک چوتھائی آبادی انتہائی غریب ہے اُور اِن کی اکثریت دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے جہاں حکومتی امداد اُور تعاون کا عشر عشیر بھی نہیں پہنچتا۔