کورونا اور سماجی ذمہ داریاں۔۔

مہذب اور بالغ نظر معاشروں میں حکومت اور لوگوں کی ذمہ داریوں کااس قدر خوبی کے ساتھ تعین ہواہوتاہے کہ دونوں کو اپنی اپنی حدود وقیود اورحقوق وفرائض کامکمل علم ہوتاہے نہ تو حکومت ہر معاملے میں ڈنڈا لے کر نکلتی ہے نہ ہی لوگ ہر معاملے میں حکومت کی طرف دیکھتے ہیں اسی توازن کی وجہ سے ایسے معاشروں میں تعمیر وترقی کی رفتارکہیں زیاد ہ ہوا کرتی ہے جبکہ ہمارے ہاں اس کے بالکل برعکس صورت حال دکھائی دیتی ہے حقوق وفرائض کے حوالہ سے موجود عدم توازن کورونا کی وبا کے دوران بھی پورے عروج ہے کرونا حکومت پاکستان اور پاکستانی قوم دونوں کےلئے ایک اجتماعی مسئلہ ہے اور اس اجتماعی مسئلہ کو حل کرنے کی ذمہ داری سب پر عائد ہوتی ہے۔ یہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ خالصتاً قیمتی انسانی جانوں کے تحفظ کا مسئلہ ہے اور اس مسئلہ کا تعلق ہماری معیشت سے بھی ہے ، جسے کورونا کی پہلی لہر سے سخت نقصان پہنچا تھا خود اپوزیشن جماعتوں نے بھی وفاقی حکومت سے لاک ڈاﺅن کرنے کا مطالبہ کیا تھا تاکہ کرونا کے پھیلاﺅ کو روکا جائے۔ جبکہ تاجر برادری اور دکانداروں نے لاک ڈاﺅن کی مخالفت کی تھی اس وقت حکومت نے پورے ملک میں لاک ڈاﺅن نہیں لگایا تھا صرف ان شہروں اور علاقوں میں یہ شروع کیا تھا جو کورونا سے زیادہ متاثر ہوئے تھے ۔حکومت کا یہ فیصلہ بڑا کامیاب ثابت ہوا اور کورونا کے پھیلاﺅ کو مزید روکنے کا باعث بنا۔ اس وقت بھی طبی ماہرین نے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کورونا ابھی ختم نہیں ہوا ، اس کی دوسری لہر آسکتی ہے اور یہ دوسری لہر پہلی لہر سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ طبی ماہرین کا یہ خدشہ درست ثابت ہوگیا اور آج پوری دنیا کو کورونا کی دوسری لہر نے اپنی لپیٹ میں لیاہواہے ۔ پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں ہے، کورونا کے پھیلاﺅ کو روکنے کا سب سے بڑا اور موثر طریقہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ہے۔ حکومت نے اس حوالہ سے ایس او پیز جاری کی ہیں، اس کے تحت ماسک پہننا اور سماجی فاصلہ لازمی قرار دیا گیا ہے، بڑے اجتماعات اور شادی ہالز کے اندر تقریبات پر پابندی عائدہے ، بسوں اور سفر کرنے والوں کےلئے بھی ہدایات جاری کی گئی ہیں، عوامی مقامات پر جانے کےلئے بھی ایس او پیز میں ذکر موجود ہے بغیر ضروری کام کےلئے گھروں سے نکلنے سے گریز کرنے کی ہدایت ہے یہاں تک کہ گھروں میں بھی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے ایس او پیز پر عمل کرنا حکمرانوں، اپوزیشن ، دکانداروں ، ریڑھی بانوں ، رکشہ چلانے والوں ، الغرض ہر پاکستانی پر لازم ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اسے ایک قومی فرضہ سمجھ کر ادا کرنا چاہئے توغلط اور بے جا نہ ہوگا۔اس عالمی وباءپر قابو پانا ، لوگوں کا روزگار جاری رکھنا اور ملکی معیشت کو اس وباءسے بچانا ایک قومی ذمہ داری ہے اس سلسلہ میں معاشرہ کے ہر طبقہ کو اپنی سماجی ذمہ داری پوری کرنی چاہئے جیسا کہ کہاگیاکہ ہر معاملہ حکومت پر نہیں چھوڑنا چاہئے خود بھی اپنافرض پورا کرناچاہئے حکومت نے تو اپنے طورپر بہت کچھ کیا ہے جس کے بعد ہمیں بھی اپنی سماجی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے کم از کم حکومتی ایس اوپیز پر تو عملد ر آمدیقینی بناناچاہئے بدقسمتی سے ہمارے ہاں آج بھی بہت سے لوگ اس عالمی وبا کو ایک مذاق یا پھر کوئی بیرونی سازش سمجھ رہے ہیں ان میں اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی شامل ہیں ماسک لگانے تک کو معیوب تصورکیاجاتاہے اس ضمن میں یقینا ہم اپنی سماجی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہیں ہم نے سب کچھ حکومت اورانتظامیہ پر چھوڑ اہے اگر حکومت سختی نہ کرتی توہماری غیر سنجیدگی سے اب تک بہت بڑا انسانی المیہ رونما ہوچکاہوتا ۔حیرت ہے کہ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں میں بھی احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد نہیں ہوا جس کی وجہ سے تمام تعلیمی ادارے دوبارہ بند کرنے پڑے شادی بیاہ کی تقریبات میں بھی ایس او پیز کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں بازاروں کی صورت حال دیکھ لیں سو میں سے دس سے بیس لوگ ہی ماسک پہنے دکھائی دیں گے اسی طرح ٹرانسپورٹرز حضرات بھی ایس او پیز پر عمل سے گریزاں ہیں ایسے میں اگر حکومت شادی ہالوں پر دوبارہ پابندی لگائے ، بازاروں کی چیکنگ کا سلسلہ دراز کرے تو پھر عوام ، تاجر برادری اور تعلیمی ادارے سراپا احتجاج ہوں گے اور حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلنے سے دریغ نہیں کریں گے تو سوال یہ پیداہوتاہے کہ اس قسم کی صورت حال کی نوبت ہی کیوں آنے دی جائے چنانچہ آج اس نازک موڑ پر وقت آگیاہے کہ ہر مکتبہ فکر اپنی اپنی سماجی ذمہ داریوں کااحساس کرتے ہوئے حکومت کے ہاتھ مضبوط کرے تاکہ کورونا کی وبا کی اس دوسری لہر سے بھی خود کو کم سے کم نقصان کے ذریعہ نکالا جاسکے ۔