روڈ ٹو مکہ۔۔

 قبول اسلام سے روحانیت کے سفر میں ارتقائی منازل طے کرنے والے امریکہ کے معروف مصنف‘ تجزیہ کار اور مبلغ محمد اسد کی خودنوشت اور سفرنامہ ’دی روڈ ٹو مکہ (The Road to Mecca)‘ نامی کتاب اگست 1954ءمیں شائع ہوئی اور تب سے تاحال اسلام کے بارے میں مغربی ممالک میں پڑھی جانے والی اِس کتاب کو نہ صرف اسلامی وغیراسلامی علمی ادبی حلقوں نے پسند کیا بلکہ اِسے حوالہ جاتی دستاویز (ریفرنس بک کے طور پر) اسلام کے تعارف اور اسلام شناسی کے طور پر بھی پڑھا‘ دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ کتاب سے استفادہ کرنے والوں میں مسلم ممالک کے سربراہان مملکت بھی شامل ہیں‘ جنہوں نے کئی تصورات سے اتفاق کیا۔ مذکورہ کتاب سے رہنمائی لیتے ہوئے سعودی عرب نے اِسی کے نام سے منسوب ایک حکمت عملی (روڈ ٹو مکہ) متعارف کروائی۔ جس کے تحت سعودی عرب جانے والے عازمین حج و عمرہ کے لئے خصوصی سہولیات متعارف کروائی گئیں کہ وہ اپنے ملک ہی سے امیگریشن کر کے جہاز پر سوار ہوں اور یوں ایک طویل سفر اور زیارات دیکھنے کی لگن رکھنے والوں کو انتظار نہ کرنا پڑے اور اُن کے سفر میں اپنی منزل مقصود کو دیکھنے کی خواہش اور اُس تک پہنچنے میں کوئی بھی عمل حائل نہ ہو وفاقی کابینہ اجلاس (تیرہ جنوری دوہزار اکیس کے روز) میں ’روڈ ٹو مکہ‘ کو دیگر شہروں تک توسیع دینے کے لئے حکمت عملی پیش کی گئی اور اگرچہ فی الوقت کورونا وبا کی وجہ سے سعودی عرب سفر کرنے پر پابندی ہے لیکن حالات معمول پر آتے ہیں اِس سفری سہولت و بندوبست سے سینکڑوں ہزاروں عازمین حج و عمرہ مستفید ہوں گے جو پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دوستی کے رشتوں کو مضبوط کرنے کا بھی باعث بنے گا۔ سعودی عرب دنیا کے امیر ترین ممالک کی تنظیم ’جی ٹوئنٹی‘ کا حصہ ہے جس کی معیشت کا حجم 34.4 کھرب ڈالر ہے اور سعودی عرب کے پاس ترقی یافتہ شکل میں دنیا کی قیمتی جنس (پیٹرولیم) کے ذخائر موجود ہیں۔ مجموعی قومی خام پیداوار (جی ڈی پی) کے لحاظ سے سعودی عرب دنیا کا 20واں جبکہ عرب ممالک میں سب سے بڑی معیشت (و اثاثہ جات) رکھنے والا ملک ہے اور اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو سعودی عرب کا پاکستان میں 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ اور سعودی عرب میں پاکستان کی لیبرفورس کےلئے ترجیحات کم ترین سطح پر دکھائی دیتی ہیں۔ پاکستان کی جانب سے سعودی عرب سے مراسم ایک برادر اسلامی ملک کے ہیں اور دونوں ممالک ایک دوسرے کی اہمیت سے آشنا ہے لیکن وقت ہے کہ ’روڈ ٹو مکہ‘ حکمت عملی کو توسیع دیتے ہوئے تجارت اور افرادی قوت کے شعبوں میں پاکستان کو کم سے کم اُتنی اہمیت ہی دی جائے جس قدر کئی ممالک بالخصوص بھارت کو عرب دنیا میں حاصل ہے۔