موضوع دلچسپ ہے کہ اِنٹرنیٹ (internet) کے ذریعے رابطہ کاری سے لیکر سوشل میڈیا پر اظہار خیال تک کے مراحل کتنے محفوظ (قابل اعتماد) اور کتنے غیرمحفوظ (ناقابل بھروسہ) ہیں؟ یہ سوال اور بحث معروف سافٹ وئر ’واٹس ایپ‘ کی جانب سے نئی حکمت عملی (سیکورٹی پالیسی) متعارف کرانے کے بعد سے جاری ہے جس نے اُن صارفین کو بھی بلاوجہ تشویش (پریشانی) میں مبتلا کر رکھا ہے جو انٹرنیٹ کا استعمال صرف اور صرف تفریح طبع کےلئے کرتے ہیں۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ انٹرنیٹ کا ہر وسیلہ اور ہر ذریعہ (سافٹ وئر کمپنیاں) صارفین کی معلومات اور صارفین کے بارے میں معلومات اپنے پاس ذخیرہ (محفوظ) رکھتی ہیں اور انہیں مختلف کاروباری مقاصد کے علاو¿ہ سافٹ وئر کو صارفین کی توقعات (خواہشات یا ترجیحات) کے مطابق بہتر بنانے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ کسی صارف کی مخصوص دلچسپی کو مدنظر رکھتے ہوئے اُسے دنیا بھر میں رونما ہونے والی ایجادات سے باخبر رکھنا۔ ایک ہی شہر یا کسی تعلیمی ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والوں کے بارے میں ایک دوسرے کو مطلع کرنا۔ سافٹ وئر کمپنیاں کچھ کام مصنوعی ذہانت کے استعمال سے بھی کرتی ہیں جیسا کہ کسی صارف کی عمر‘ مشاغل اور پسند کئے جانے والے موضوعات کو مدنظر رکھتے ہوئے اُسے تشہیری مواد ارسال کرنا یا پھر کسی ملک میں عام انتخابات کے موقع پر لاکھوں صارفین کے سیاسی رجحانات اور پسندیدگی کو خودکار طریقے سے جانچنے کے بعد اُن تک تشہیری مواد پہنچانا جس کےلئے سیاسی جماعتوں سے کروڑوں روپے لئے جاتے ہیں اور سافٹ وئر کمپنیوں کی آمدن کا یہی ذریعہ ہوتا ہے۔فیس بک جب 20 ارب ڈالر کے عوض ’واٹس ایپ‘ کو خرید رہا تھا اور یہ بات پوشیدہ (راز) بھی نہیں رکھی گئی تو کسی صارف نے اِس بارے میں نہیں سوچا کہ اگر کوئی کمپنی 20 ارب ڈالر (پاکستانی کھربوں روپے) ادا کر رہی ہے اور وہ ’واٹس ایپ‘ پر نہ تو اشتہارات دے رہی ہے اور نہ ہی صارفین سے خدمات کی قیمت (معاوضہ) وصول کر رہی ہے تو کیا ’فیس بک‘ کے فیصلہ ساز دیوانے ہیں کہ اُنہیں اپنے نفع نقصان کی فکر نہیں! ذہن نشین رہے کہ چھوٹی بڑی ہر سافٹ وئر کمپنی کی کاروباری حکمت عملی میں شامل ہوتا ہے کہ وہ پہلے اپنی خدمات مفت فراہم کرتے ہیں اور جب صارفین (کھاتہ داروں) کو اِن کی مصنوعات و خدمات استعمال کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے تو اُس وقت بذریعہ اشتہارات یا سافٹ وئر استعمال کی کوئی خاص قیمت مقرر کرتے ہیں چونکہ واٹس ایپ کے نصف سے زیادہ صارفین کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہے جہاں موبائل فون کے ذریعے مالی ادائیگیاں (آن لائن ٹرانزیکشنز) نہیں کی جاتیں اور نہ ہی موبائل فون صارفین کی اکثریت قیمت ادا کرکے سافٹ وئرز استعمال کرنا پسند کرتی ہے۔ اِس لئے ’واٹس ایپ‘ کے پاس منافع کمانے کی صرف ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ وہ صارفین کی پسند و ناپسند‘ اُن کے جغرافیائی محل وقوع اور مشاغل و دلچسپیوں پر نظر رکھے اور اگر وہ آن لائن خریداری کر رہے ہیں تو ایسے صارفین کو بطور خاص ’آن لائن لین دین‘ جیسی سہولیات دیں جس کے لئے مصنوعات سازوں یا اُن کی مارکیٹنگ کرنے والوں سے قیمت وصول کی جائے گی اور یہ کام کم و بیش سبھی سافٹ وئر کمپنیاں کرتی ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ واٹس ایپ نے باقاعدہ اعلان کر دیا ہے کہ اُس کی ’سیکورٹی پالیسی‘ تبدیل ہو گئی ہے اور اُن سبھی صارفین کی ایک ماہ (فروری دوہزار اکیس تک) واٹس ایپ تک رسائی ختم کر دی جائے گی جو ادارے کی ’نئی سیکورٹی پالیسی‘ سے متفق (agree) نہیں ہوتے۔اِنٹرنیٹ کے ذریعے ٹیلی فونک رابطہ کاری (VOIP) کا مقبول ترین ذریعہ ’واٹس ایپ (WhatsApp)‘ کی تخلیق فروری 2009ءامریکہ میں ہوئی۔ وجہ تسمیہ یہ تھی کہ امریکہ میں کسی شخص کا حال اَحوال پوچھنے کے لئے عمومی لفظ ’واٹس اپ (What's Up)‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ واٹس ایپ امریکی اور روسی سافٹ وئر ماہرین کی ایجاد تھی‘ جس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور استعمال کو دیکھتے ہوئے فروری 2014ءمیں سماجی رابطہ کاری کی معروف امریکی ویب سائٹ ’فیس بک‘ نے اِسے قریب 20 ارب (19.3 بلین) ڈالر میں خرید لیا۔ واٹس ایپ کی مقبولیت کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کرہ ارض کی کل آبادی 7 ارب میں سے 2 ارب سے زیادہ لوگ ’واٹس ایپ‘ استعمال کرتے ہیں اور اِن میں سے نصف تعداد کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہے۔واٹس ایپ کی نئی سیکورٹی پالیسی پر دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی صارفین کی ایک تعداد بھیڑ چال میں (ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی) تنقید کر رہی ہے جبکہ صارفین کی بڑی تعداد نے مذکورہ پالیسی کو دیکھے اور پڑھے بغیر منظور بھی کر لیا ہے لیکن زیادہ تر صارفین میں یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ کہیں ان کا کوائف (data) جس میں گھر والوں اور دوست احباب کے درمیان ہونے والے تحریری پیغامات (ٹیکسٹ مسیجز)‘ صوتی پیغامات (آڈیو مسیجز)‘ تصاویر (پکچرز)‘ اور نجی یا عمومی ویڈیوز (فلمی مواد) کا تبادلہ‘ فون کالز‘ تصاویر اور ویڈیوز راز (سیکرٹ) نہیں رہیں گی لیکن ’واٹس ایپ‘ کی جانب سے یہ بات بطور خاص زور دے کر کہی گئی ہے کہ صارفین کے درمیان ہونے والی نجی گفتگو یا پیغامات تک کسی بھی غیرمتعلقہ شخص یا ادارے کو رسائی نہیں دی جائے گی اکتوبر 2006ءمیں ’جولین اسانج ‘ کا متعارف کردہ پلیٹ فارم ’ویکی لیکس نے عالمی طاقت کو مشکل سے ڈال دیا‘ جنہیں سفارتی و عسکری مہمات کی وضاحتیں دینا پڑیں لیکن حیرت انگیز بات یہ تھی کہ ویکی لیکس نے امریکہ کی جو چوری شدہ سفارتی دستاویزات منظرعام پر لائیں انہیں کسی بھی متعلقہ ملک نے جعلی (غیرحقیقی) قرار نہیں دیا حیران کن بات یہ ہے کہ پاکستان کے عوام و خواص اور ذرائع ابلاغ پر مبنی حلقوں نے بھی اُن دستاویزات اور مراسلوں (ویکی لیکس) کو وقت گزرنے کے ساتھ بھلا (فراموش کر) دیا ہے۔ انٹرنیٹ کی مدد سے محفوظ ڈیجیٹل دستاویزات اور اُن کی اِلیکٹرانک ٹرانسفرز اُس وقت تک مشکوک (ناقابل اِعتبار) رہیں گی‘ جب تک جعل سازی کا اِرتکاب کرنے کے اِمکانات اور وسائل موجود رہیں گے۔