محفوظ‘غیرمحفوظ دنیا (پندرہ جنوری) اور انٹرنیٹ: اخلاقی و قانونی پہلو (سولہ جنوری) کے عنوانات کی ذیل میں اُس صورتحال کے مختلف پہلوو¿ں کا جائزہ لیا گیا جو 4 جنوری سے ’واٹس ایپ‘ کی نئی پرائیویسی حکمت عملی (سیکورٹی پالیسی) کے اجرا سے سامنے آئی ہے اور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ کئی ممالک میں ’واٹس ایپ‘ کے وہ صارفین بھی اِس سے تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں جو اِنٹرنیٹ (اِنفارمیشن ٹیکنالوجی) اور انٹرنیٹ پر منحصر سہولیات (سافٹ وئر اور ایپلی کیشنز) کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ اِس مرحلہ فکر پر پاکستان کے اُس سرکاری ردعمل کا جائزہ لیا جائے‘ جس کے تحت ’واٹس ایپ‘ کی پرائیویسی پالیسی میں تبدیلیوں کا جواب دینے کی کوشش میں صارفین کو مزید الجھا دیا ہے اور اُن کا شک یقین میں بدل گیا ہے کہ واٹس ایپ کی سیکورٹی پالیسی میں اعلانیہ تبدیلی سے کچھ ایسی بدتہذیبی جنم لے گی جس میں کسی بھی صارف کے کوائف اور ذاتی معلومات محفوظ نہیں رہیں گی۔واٹس ایپ کی جانب سے سیکورٹی پالیسی میں تبدیلی کا اعلان چار جنوری کے روز صارفین کو بھیجنے جانے والی ایک تنبیہ کے ساتھ کیا گیا کہ اگر وہ نئی حکمت عملی سے متفق (agree) نہیں تو آٹھ فروری دوہزار اکیس سے اُن کی ’واٹس ایپ‘ تک رسائی ختم کر دی جائے گی اور واٹس ایپ استعمال کرنے کی آئندہ (آٹھ فروری) کے بعد صرف یہی ایک صورت ہوگی کہ صارفین مذکورہ نئی حکمت عملی کو لازماً قبول کریں بصورت دیگر اُن کے ’واٹس ایپ‘ اکاو¿نٹس ڈیلیٹ کر دیئے جائیں گے واٹس ایپ اور فیس بک کے مو¿قف کو سمجھنے میں مشکل بنانے والوں میں وہ سافٹ وئر کمپنیاں بھی ملوث ہیں جو کاروباری حریف ہیں اور یہ صارفین کو یقین دلا رہی ہیں کہ اِن کے سافٹ وئر واٹس ایپ سے زیادہ محفوظ ہیں جیسا کہ سگنل (Signal) اور ٹیلی گرام (Telegram) کی مارکیٹنگ اور اِنہیں حاصل (ڈاو¿ن لوڈ) کرنے والوں کی تعداد میں حالیہ چند دنوں (چار جنوری کے بعد سے) نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ صارفین کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ ٹیلی گرام پہلے ہی اپنی خدمات کی قیمت مقرر کرنے کا اعلان کر چکا ہے کہ رواں برس کسی موقع پر وہ ٹیلی گرام خدمات کی قیمت وصول کرے گا جبکہ سگنل نامی کمپنی وہی ہے جس نے فیس بک اور واٹس ایپ کےلئے سیکورٹی موڈیولز فراہم کئے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے مواصلاتی رابطوں کے خواہشمند اور صارفین کو احتیاط کرنی چاہئے کہ کہیں وہ ایک مشکل سے نکل کر دوسری (نسبتاً زیادہ پیچیدہ) مشکل میں نہ پھنس جائیں کیونکہ انٹرنیٹ ایک گرداب کی صورت ہے کہ اِس سراب کی ظاہری چمک دمک اپنی جگہ لیکن اِس مصنوعی دنیا (ورچوئل ورلڈ) میں کچھ بھی محفوظ (قابل بھروسہ) نہیں۔واٹس ایپ کے حوالے سے پاکستان کا اب تک ردعمل بیانات کی صورت سامنے آیا ہے۔ وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے واٹس ایپ کی نئی پرائیویسی پالیسی سے متعلق کہا ہے کہ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی شہریوں کی پرائیویسی کے تحفظ کےلئے سخت قانون لانے پر غور کر رہی ہے۔ اس حوالے سے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹیلی کام کے آفیشل ٹوئٹر پر جاری بیان کے مطابق وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی سید امین الحق نے کہا ہے کہ ہم سوشل میڈیا ایپ واٹس ایپ کی اپ ڈیٹ پالیسی کے حوالے سے پاکستانی صارفین میں پائی جانے والی تشویش سے بخوبی آگاہ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تمام معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہوئے اپنی پالیسیوں کو مرتب کررہے ہیں کہ پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل کی تیاری‘ سرکاری ملازمین کےلئے چیٹنگ ایپلی کیشن کی تیاری اور سوشل میڈیا کمپنیوں سے رابطوں میں تیزی لائی گئی ہے۔ ایک اُور ٹوئٹ پیغام میں وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی فیصلہ سازوں کے ہاں واٹس ایپ کی پرائیویسی پالیسی (جسے متنازع کہا گیا ہے کے بارے میں) بحث (غوروخوض) جاری ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ واٹس ایپ انتظامیہ کے وضاحتی بیان کے مطابق پرائیویسی پالیسی کا اطلاق انفرادی نہیں بلکہ کاروباری کھاتے (بزنس کنزیومر اکاو¿نٹس ہولڈرز) پر ہوگا۔ امین الحق کے مطابق سال 2014ءمیں جب فیس بک نے واٹس ایپ خریدا تو تب صارفین کو اِس بات کی یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ پرائیویسی سے متعلق پالیسی تبدیل نہیں کی جائے گی جس کے بعد 2016ءمیں واٹس ایپ نے صارفین کو دیگر کمپنیوں کو اپنی معلومات کے استعمال کی اجازت دینے یا نہ دینے کا اختیار بھی دیا تھا۔ وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ’واٹس ایپ (فیس بک) ادارے‘ کی مذمت کی ہے کہ اِس نے اپنے بیان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نئی پرائیویسی پالیسی اپ ڈیٹ نہ کرنے کی صورت میں صارفین کی دسترس محدود کرنے کا اعلان کیا ہے اُور جو صارفین نئی پالیسی غیرمشروط طور پر قبول نہیں کریں گے اُن کے کھاتے (اکاو¿نٹس) ختم (ڈیلیٹ) کر دیئے جائیں گے اور یہ ایک تشویش کا باعث اَمر ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ کسی بھی صارف سے یہ حق نہیں چھینا جاسکتا کہ وہ اپنی نجی معلومات یا انٹرنیٹ پر سرگرمیوں سے متعلق کوائف (ڈیٹا) اپنے علاوہ کسی فرد یا ادارے کو استعمال‘ فروخت یا محفوظ رکھنے کی اجازت دے گویا انٹرنیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا جیسی رابطہ کاری فراہم کرنے والے ادارے صارفین پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتے کیونکہ ایسا کرنے سے صارفین کے حقوق متاثر ہوتے ہیں یقینا پاکستان کے مو¿قف میں وزن ہے اور صارفین کے حقوق کا تحفظ بھی ضروری ہے۔