سویڈن میں رہتے ہوئے یہ بات تو پہلے ہی دن واضح ہوگئی تھی کہ کورونا وائرس نے تمام انسانوں کی زندگیاں شدید طور پر متاثرکر دی ہیں، لیکن اس موذی وباءنے ہماری زندگیاں اس قدر بدل دی ہیں اس کا مکمل اندازہ اس وقت ہوا جب پاکستان جانے کا فیصلہ کیا، معلومات لینے پر پتہ چلا کہ پاکستان میں داخل ہونے کےلئے کورونا وائرس کا PCRٹیسٹ لازمی کرنا پڑتا ہے۔ ٹیسٹ کرنے کےلئے معلومات حاصل کیں تو معلوم ہوا کہ ٹیسٹ کےلئے نہ صرف یہ کہ ٹائم لینا پڑتا ہے بلکہ اس کی قیمت بھی اندازے سے کچھ زیادہ تھی، ٹیسٹ پر پاکستانی پیسوں کے حساب سے 50ہزار تک کا خرچہ آنا تھا۔ بحرحال ٹیسٹ کےلئے ٹائم لیا اور فیس ادا کی اور ٹیسٹ کرلیا، اگلے ہی روز ٹیسٹ کا جواب منفی آیا تو پاکستان جانے کا راستہ ہموار ہو گیا۔اگلے ہی روز سویڈن کے شہر سٹاکہوم سے سوئٹزرلینڈ کے شہر زیوریخ کےلئے پرواز پکڑ لی، زیوریخ میں ایک گھنٹے سے کم کا قیام کرنے کے بعد سوئس ائیرلائن کی فلائٹ سے دوبئی کےلئے روانہ ہوئے، پرواز اپنے ٹائم سے ایک گھنٹہ لیٹ روانہ ہوئی جس کی وجہ سے دوبئی پہنچتے ہی اگلی فلائٹ کےلئے ٹائم کم رہ گیا تھا، اگلی فلائٹ جو کہ پشاور کےلئے تھی اور گیٹ نمبر کافی دور تھا، لہٰذا صحیح بھاگ دوڑ کرنا پڑی، گیٹ بند ہونے سے چند ہی منٹ پہلے بورڈنگ کرلی، بورڈنگ کے دوران میں نے جہاز کے عملے سے اپنے Luggageکے بارے میں پوچھا، کیونکہ مجھے خدشہ ہونے لگا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا Luggageدوبئی میں ہی رہ جائے کیونکہ میں نے آخری منٹوں میں بورڈنگ کی تھی جبکہ ایک جہاز سے دوسرے جہاز تو Luggageکو پہنچنے میں زیادہ ٹائم درکار ہوتا ہے، ائیرلائن کے عملے نے معلومات لیں اور بتایا کہ Luggageپہنچ چکا ہے۔، یہ جان کر مجھے کچھ تسلی ہوگئی۔ دوبئی سے پشاور کےلئے میری فلائٹ امارات ائیرلائن کی تھی، دوبئی سے سفر شروع ہوا اور جہاز صبح 7بجے کے قریب ہماری فلائٹ پشاور کے باچا خان ائیرپورٹ پہنچی۔ پشاور پہنچنے پر دوسرا مرحلہ ایمیگریشن اور سامان کی وصولی کا تھا، ایمیگریشن کلیرنس کا مرحلہ میری توقعات کے برعکس نہایت ہی کم وقت میں مکمل ہوا، مشکل سے ہی 15منٹ لگے ہوں گے، حالانکہ چند سال پہلے اسی ائیرپورٹ پربہت زیادہ وقت ضائع ہوجایا کرتا تھا۔ ائیرپورٹ پہلے سے زیادہ منظم دکھائی دیا، عملہ بھی پہلے سے زیادہ دوستانہ رویے کے ساتھ پیش آیا، بلڈنگ بھی پہلے سے کئی گنا زیادہ کھلی دکھائی دی، صفائی کی صورتحال بھی زبردست تھی، مختصراً یہ کہ ائیر پورٹ پر ایک بہت ہی خوشگوار تبدیلی نے ہمارا استقبال کیا۔ ائر پورٹ کی یہ خوشگوار تبدیلی اس وقت حیرت میں تبدیل ہوئی جب مجھے پتہ چلا کہ میرا Luggageدوبئی میں رہ گیا ہے، ائیرلائن کے ایک بندے نے میری ٹکٹ اور سامان کی تفصیلات لی اور رپورٹ درج کراتے ہوئے کہا کہ اگلے تین روز میں سامان پشاور پہنچے گا۔ لہٰذا میں اپنے لیپ ٹاپ اور کیمرے کے ساتھ ائیر پورٹ سے باہر آیا جہاں میرا بھائی مجھے لینے کےلئے آیا انتظار کر رہا تھا، گھرجاتے ہوئے راستے میں بی آر ٹی کی بسوں نے بھی پشاور میں ایک نت نئی خوشگوار تبدیلی کا احساس دلایا۔ راستے پہلے کی نسبت زیادہ صاف ستھرے دکھائی دئیے، ٹریفک کا نظام بھی پہلے سے بہتر لگا۔ گھر پہنچنے کے بعد شام کو پشاور صدر آنا پڑا کیونکہ ضرورت کی کچھ چیزیں اس لیے لینی پڑ ی تھی کہ میرا سارا سامان دوبئی میں رہ گیا تھا۔ اب کے بار ایک بے ہنگم ٹریفک نے میرا استقبال کیا، صبح کے وقت جو خوشگوار تبدیلی محسوس کی تھی وہ اب شام کے وقت گرد آلود دکھائی دینے لگی تھی۔ سب کچھ پہلے جیسا ہی لگنے لگا تھا، دو لائنوں والی روڈ پر گاڑیوں کی چار چار قطاریں لگی ہوئی تھیں اور ہر طرف ٹریک جام کا نظارہ تھا۔ ایک دوسرے سے راستہ لینے کےلئے بے صبری، گالم گلوچ اور دھینگا مشتی کے کئی ایک واقعات نے میرا ذہن صاف کردیا کہ نظام کی تبدیلی سے بھی زیادہ ضروری فکر کی تبدیلی ہے، جبکہ لگ ایسے رہا ہے کہ ہمارے لوگوں کی واضح کثریت فکر کی تبدیلی کےلئے تیار ہونا ہی نہیں چاہتے۔ فکری تبدیلی کے حوالے سے باقی گفتگو اگلے کالم میں قارئین کی نذر کرنے کی کوشش کروں گا۔