تمام تردعوﺅں کے باوجود محض پندرہ دن کے دوران پٹرولیم مصنوعات کی قیمتو ںمیں ایک بارپھراضافہ کردیاگیاہے یوں ایک کے بعد دوسری چیز مہنگی ہوتی جارہی ہے کچھ عرصہ کے لئے چیزوں کے سستا ہونے کارجحان بھی سامنے آتاہے مگر وہ دیرپا ثابت نہیں ہوتا اس وقت بھی اگر دیکھاجائے تو ملک بھر میں آٹے اور چینی کے نرخوں میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے ماضی میں اس ضمن میں وزیر اعظم عمران خان نے انکوائریاں بھی کروائیں ان کی رپورٹیں بھی سامنے آئیں اور ذمہ داروں کا تعین بھی کیا گیا لیکن حسب سابق ذمہ داروں پر نہ تو ہاتھ ڈالا گیا اور نہ ہی عوام کو ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں سے نجات مل سکی ۔ اس کا صاف الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ ذمہ داران انتہائی با اثر ہیں اور انہیں متعلقہ محکموں کی طرف سے بھر پور تائید وحمایت حاصل ہے حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ جب وزیر اعظم عمران خان آٹے اور چینی کے نرخوں میں کمی کا اعلان کرتے ہیں تو ان کی قیمتیں اچانک بڑھ جاتی ہیں جس پر بعض عوامی حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ بہتر یہ ہوگا کہ وزیر اعظم ایسے اعلانات نہ کریں تو مناسب ہوگا ۔ خود وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ ملک میں مختلف مافیاز ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مافیاز پر ہاتھ بھی حکومت نے ڈالنا ہے اگر حکومت صحیح معنوں میں مافیاز پر ہاتھ ڈالے اور اس حوالہ سے متعلقہ اداروں کو فعال اور متحرک کریں تو مافیاز کا خاتمہ ہوسکتا ہے ۔ موجودہ حکومت کے لئے خطرہ اپوزیشن اتحاد سے نہیں بلکہ اسے خطرہ مہنگائی سے ہے جس پر اب تک حکومت کوئی کنٹرول نہیں کرسکی ، مہنگائی کے خاتمہ کے حکومتی اقدامات بھی ناکام ہوچکے ہیں بلکہ عام مشاہدہ یہ ہے کہ حکومتی اقدامات کے نتیجہ میں مہنگائی مزید بڑھتی چلی جارہی ہے ۔ ایک طرف آٹے اور چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے ، دوسری طرف نانبائیوں نے روٹی کا وزن کم کردیا ہے 10 روپے کی روٹی پر پاپڑ کا گمان ہوتا ہے اسی طرح 15 روپے کی روٹی کا وزن بھی مقرر کردہ وزن سے کم ہے ، ضلعی انتظامیہ اور دیگر متعلقہ اداروں کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے ، اسی طرح پختہ چائے فروشوں نے بھی قیمتیں بڑھادی ہیں، یہی حال دیگر اشیاءخوردونوش کی قیمتوں کا ہے سبزیاں مہنگی ہیں پھلوں کی خریداری عوام کی دسترس سے باہر ہے ‘ٹیکسی اور رکشوں کے کرائے بھی بڑھ گئے ہیں کپڑے ، جوتے مہنگے ہیں ، نائیوں اور درزیوں نے بھی اپنے نرخ بڑھا دیئے ہیں کوئی بھی سرکاری نرخنامہ پر عمل نہیں کررہا ہے ہر کسی نے اپنی پسند کے نرخ مقرر کئے ہیں الغرض ہر ایک نے مہنگائی کے بڑھنے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے ، اس سب کے علاوہ اشیاءخوردونوش میں ملاوٹ کی شکایتیں بھی روز اخبارات میں آتی ہیں ملاوٹی اشیاءسے بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں لیکن اس کی روک تھام نہیں کی جارہی حالانکہ اس سب کے لئے کئی محکمے موجود ہیں جو خواب غفلت میں پڑے دکھائی دیتے ہیں اگر ان محکموں کا قبلہ درست کیا جائے انہیں تطہیری عمل سے گزارا جائے ان میں موجود کالی بھیڑوں کو نکال باہر کردیا جائے اور ان محکموں کو مضبوط کیا جائے توہم وثوق سے کہتے ہیں کہ بگڑے سارے معاملات درست ہوجائیں گے اور عوام کی اس حوالہ سے شکایات بھی ختم ہوجائیں گی اور ان کی پریشانیاں بھی دور ہو جائیں گی حلا ل فوڈ اتھارٹی کسی زمانے میں بہت مﺅثر کردار اداکرتی رہی ہے مگر اس وقت اس کے اقدامات نمائشی حد تک رہ گئے ہیںجس کی وجہ سے لوگ ملاوٹی اورمضر صحت اشیاءکھانے پر مجبور ہیں اسی طرح مجسٹریسی نظام کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان گنت محکمے موجود ہونے کے باوجود مہنگائی مافیا بے لگا م ہے ایسے میں اب حکومت کو نظر آنے والے اقدامات پر توجہ دینی اور کام چور اہلکاروں کو گھر بھیجناہوگا ۔