سپیکر خیبر پختونخوا اسمبلی مشتاق احمد غنی نے درجہ چہارم ملازمین کی دوسرے اضلاع میں تعیناتی کو مروجہ قواعد و ضوابط کے سراسرمنافی قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ محکمہ تعلیم سمیت کسی بھی شعبے میں درجہ چہارم، گریڈ 5تا 11ملازمین کی دوسرے اضلاع میں تعیناتی کے حوالے سے متعلقہ محکمے کے ایگزیکٹو ڈسٹرکٹ آفیسر سے باز پرس ہوگی۔خیبر پختونخوا کے تقریباً تمام اضلاع سے یہ شکایتیں مل رہی ہیں کہ صوبائی وزرائ، مشیروں، معاونین خصوصی ،ایم پی ایزاور ایم این ایزکے علاوہ سیاسی جماعتوں کے رہنماﺅں کی سفارش یا دباﺅ کے تحت کم گریڈ اور درجہ چہارم کے ملازمین کو دوسرے اضلاع میں تعینات اور تبدیل کیاجاتا ہے جس سے ان ملازمین کو مشکلات کا سامنا اور مقامی آبادی کی حق تلفی ہورہی ہے۔کسی بھی ضلع میں خالی اسامی پر کسی کلاس فور کی اس یقین دہانی کے ساتھ تعیناتی کی جاتی ہے کہ جونہی آپ کے اپنے علاقے میں کوئی اسامی خالی ہوگی۔ تمہارا وہاں تبادلہ کیا جائے گا۔ اور وہ بے چارہ دس دس سال تک اسامی خالی ہونے کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے ۔اگر پشاور سے کسی کلاس فور ملازم کی بونیر، دیر، چترال یا کرک میں تعیناتی کی جائے تو وہ اپنی دس پندرہ ہزار کی تنخواہ خود کھائے گا، آنے جانے پر خرچ کرے گا یا بال بچوں کی کفالت کرے گا۔حال ہی میں چترال سے ایسے سینکڑوں ملازمین کی فہرست تیار کی گئی ہے جن کی لوئر چترال سے سیاسی سفارش پر اپر چترال میں تقرریاں ہوئی ہیں ۔ان میں پرائمری ٹیچر، فزیکل انسٹریکٹر، کلرک، چوکیدار، چپڑاسی اور بہشتی بھی شامل ہیں۔لوئر چترال میں خالی اسامیوں پر اپرچترال میں تعینات اہلکاروں کا تبادلہ کرنے کے بجائے وہ اسامیاں مشتہر کی جاتی ہیں ۔سپیکر نے قواعد کی خلاف ورزی کے مرتکب سرکاری افسروں سے باز پرس اور ان کے خلاف کاروائی کا عندیہ تو دیا ہے مگر جن لوگوں کے دباﺅ میں یہ تقرریاں اور تبادلے کئے جاتے ہیں ان کے بارے میں کوئی واضح ہدایت نہیں کی۔ممکن ہے کہ ایوان میں بیٹھے لوگوں کے خلاف بات کرنے یا کاروائی کرنے میں انہیں مشکلات پیش آرہی ہوں۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے میرٹ کی بالادستی کو اپنے انتخابی منشور کی ترجیحات میں شامل کیا تھا۔ پی ٹی آئی حکومت کے پہلے اور دوسرے دور میں رشوت لے کر بھرتیاں کرنے کی روایت میں کسی حد تک کمی ضرور واقع ہوئی ہے پبلک سروس کمیشن کے ذریعے غریب مگر قابل نوجوانوں کی بڑی تعداد کو ملازمتیں مل گئی ہیں لیکن رشوت ستانی کا خاتمہ ابھی تک نہیں ہوسکا۔ ترقیاتی فنڈز آج بھی سیاسی فوائد کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ وزراءاور اراکین اسمبلی کے صوابدیدی فنڈز اب تک ختم نہیں ہوئے۔ جنرل ضیاءالحق کے دور کی غیر جماعتی اسمبلی کے ارکان کو سیاسی رشوت کے طور پر بھرتیوں میں کوٹہ اور صوابدیدی فنڈز دینے کی روایت شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار میں آنے کے تین تین مواقع ملے مگر انہوں نے اس روایت کو ختم کرنے پر توجہ نہیں دی۔ پی ٹی آئی نے وی آئی پی کلچر، رشوت، سفارش، سیاسی دباﺅ، کوٹہ اور ممبران اسمبلی کا ترقیاتی فنڈ ختم کرنے کا اعلان کیا تو یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ اب میرٹ کی بالادستی، قانون کی حاکمیت اور شفاف نظام کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوگا۔ مگر یہ خواب ہنوز تشنہ تعبیر ہے۔