انٹرنیٹ: عالمی نظام

چار جنوری دوہزار اکیس کو واٹس ایپ نے حکمت عملی کا اعلان کیا‘ جس کے تحت صارفین کے کوائف سے لیکر اُن کے آن لائن مالی ادائیگیوں‘ آپسی پیغامات (ٹیکسٹ‘ آڈیو‘ ویڈیو‘ تصاویر) اور آن لائن سرگرمیوں سے اخذ کردہ رجحانات محفوظ رکھی جائیں گی اور اِن میں تکنیکی معلومات کو بھی شامل کر لیا گیا جیسا کہ واٹس ایپ کا کوئی صارف کونسا موبائل فون استعمال کرتا ہے۔ اُس موبائل فون کا عالمی رجسٹریشن نمبر کیا ہے۔ کس کمپنی کی جانب سے فراہم کردہ اُسے انٹرنیٹ فراہم کیا گیا اور صارف کا ’آئی پی ایڈریس‘ یعنی مقام کیا ہے۔ عالمی سطح پر رائج عمل ہے کہ اگر کوئی کمپنی حکومت سے تعاون نہ کرے تو اُسے اپنی خدمات وسیع کرنے کی اجازت نامہ جاری نہیں کیا جاتا۔ لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ ’واٹس ایپ‘ کی جانب سے ایک خواہش کا اظہار کیا گیا کہ وہ اپنے صارفین کی ’آن لائن‘ یا ’آف لائن ‘ سرگرمیوں اور کوائف بارے معلومات اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہتا ہے لیکن یہ بات بہت کم صارفین سمجھ رہے کہ یہ معلومات تو پہلے ہی سے مرتب ہو رہی ہوتی ہیں اور اپنا وجود رکھتی ہیں جن کا استعمال بھی صارف کے علم لاتے ہوئے یا لائے بغیر کیا جاتا ہے اور مختلف سافٹ وئر کمپنیاں بشمول اینڈرائیڈ یا آئی اُو ایس فونز اور کمپیوٹروں کے ’آپریٹنگ سسٹمز‘ ایسی تمام معلومات (جنہیں حساس قرار دیا جاتا ہے) جمع کر رہے ہوتے ہیں۔ موبائل فون‘ انٹرنیٹ اور کمپیوٹر استعمال کرنے والے صارفین کو یہ ’باریک تکنیکی اصل و اصول‘ سمجھنا چاہئے کہ اُن کی ”آن لائن سرگرمیوں“ سے لیکر اُن کے کوائف کے بارے میں اگر مذکورہ تکنیکی معلومات موجود نہ ہوں تو انٹرنیٹ کے ذریعے ’رابطہ کاری ممکن ہی نہیں ہو سکتی۔ ہر صارف اپنی معلومات اور اپنی آن لائن سرگرمیوں سے متعلق مختلف کمپنیوں بشمول انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنی کو اختیار دیتا ہے جس کے بعد ہی اُسے دنیا کی ’آن لائن پاپولیشن ‘ کا حصہ بننے کی اجازت ملتی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی ایسا ’نیٹ ورکنگ‘ کا طریقہ موجود نہیں جس میں ’انٹرنیٹ پروٹوکولز یعنی آئی پیز ‘ کے بغیر رابطہ کاری ممکن ہو اور یہی وہ توجہ طلب نکتہ ہے کہ جس کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے اور اِن سطور کے ذریعے‘ اِسے بار بار اور کھول کر بیان کرنے کا بنیادی مقصد بھی یہ ہے انٹرنیٹ صارفین خوفزدہ نہ ہوں‘ خود کو غیرمحفوظ نہ سمجھیں لیکن انٹرنیٹ کو قابل بھروسہ ذریعہ اور رابطہ کاری کا رازدارانہ وسیلہ بھی نہیں سمجھنا چاہئے۔پاکستان میں ’سولہ جنوری دوہزار اکیس‘ کے روز امریکی ادارے ’واٹس ایپ‘ نے اعلان کیا کہ اُس کی جانب سے 4 جنوری کے روز جس نئی حکمت عملی کا اعلان کیا گیا تھا اُسے واپس لیا جاتا ہے انگریزی زبان کے لفظ (اصطلاح) ’مس انفارمیشن‘ کا استعمال ایسی ’غلط یا غیرمصدقہ معلومات‘ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جو جان بوجھ کرپھیلائی جائیں۔ اِس طرح ’ڈس انفارمیشن کی اصطلاح اُس دروغ بیانی کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو حکومتیں یا ادارے اپنے کسی مخالف یا اُس کی کسی حکمت عملی کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کے لئے پھیلائیں۔ اِن اصطلاحات کے فرق اور استعمال کو ذہن میں رکھتے ہوئے ’واٹس ایپ‘ کی جانب سے جاری ہونے والے وضاحتی بیان سے یہ بات کو واضح ہوگئی ہے کہ امریکی ادارہ اپنے خلاف جاری مہم کو کسی حکومت یا ملک سے منسوب نہیں کر رہا‘ جیسا کہ بعض مغربی و امریکی ذرائع ابلاغ کے اداروں نے تاثر دینے کی کوشش کی کہ امریکہ نے جس انداز میں چین کی کمپنی ’ٹک ٹاک کے خلاف یہ کہتے ہوئے پابندیاں عائد کی تھیں کہ وہ صارفین کے کوائف سیاسی مقاصد کےلئے استعمال کرنے کے لئے چین کی حکمراں جماعت کو فراہم کر رہا ہے جو اِن کوائف کی بنیاد پر امریکہ میں سیاسی رائے عامہ پر اثرانداز ہوتی ہے تو چین نے امریکی ادارے ’واٹس ایپ‘ کے خلاف عالمی سطح پر غلط معلومات پھیلائی ہیں۔ درحقیقت ’واٹس ایپ‘ نے اپنے پاو¿ں پر خود کلہاڑی ماری ہے اور ایک ایسے وقت میں دیگر ہم عصر کمپنیوں کو فائدہ اُٹھانے کا موقع فراہم کیا ہے جبکہ کورونا وبا کے سبب انٹرنیٹ کے استعمال میں اضافہ اور اِس سے استفادہ کرنے کے طریقوں میں تبدیلی آئی ہے۔ اپریل 2020ءمیں امریکہ کے معروف روزنامہ نیویارک ٹائمز نے ایک تفصیلی مضمون میں نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا بھر میں انٹرنیٹ کے بارے میں پائی جانے والی سوچ میں تبدیلی اور اِس کی بڑھتی ہوئی مقبولیت و افادیت سمیت کئی دیگر پہلوو¿ں کا جائزہ لیتے ہوئے رائے دی تھی کہ ’انٹرنیٹ صرف طرز زندگی اور اظہار کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ ایک نیا طرزحکمرانی بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ دنیا پر حکمرانی کرنے جیسی طاقت و صلاحیت رکھنے والے اسلوب کے متبادل طریقے بھی متعارف ہو رہے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں پاکستان کہاں کھڑا ہے اور پاکستان میں ’انٹرنیٹ‘ اور ’انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ سے متعلق تعلیم و تربیت یا استفادے کا معیار کیا ہے اور کیا اِسے بہتر بنایا جانا چاہئے اور کیا اِس کی بہتری میں سرمایہ کاری درحقیقت مستقبل اور قومی دفاع ہی میں سرمایہ کاری ہوگی؟