انسانی ترقی کا سفر مسلسل جاری ہے بلکہ اس میں تیزی آتی جارہی ہے ‘مشینی زندگی انسان کی عام زندگی میں دخیل ہوتی جارہی ہے یوں محسوس ہونے لگاہے کہ آنے والے وقتوںمیں مصنوعی ذہانت ہی انسانی ذہانت کی جگہ لے لے گی ویسے بھی اگر دیکھاجائے تو اب تک کئی معرکوں میں مصنوعی ذہانت انسانی ذہانت کو شکست دے چکی ہے۔ 1996 ءمیں شطرنج کے عالمی چمپئن گیری کاسپرو کو ڈیپ بلیو نامی آئی بی ایم کمپیوٹر نے مات دے دی تھی۔ یہ چوبیس سال قبل کا واقعہ ہے۔ ان چوبیس برسوں میں ٹیکنالوجی کے جنونِ ایجاد و پیش رفت میں اس حد تک اضافہ ہوچکا ہے کہ حقیقی ذہانت مصنوعی ذہانت پر حاوی ہونے کے درپے ہے۔ 2017 ءمیں ”گو“ نامی ایک کھیل میں، جو د±نیا کے نہایت پیچیدہ کھیلوں میں سے ایک ہے، گو کے چمپئن چینی کھلاڑی کے جیئے کو گوگل کا الفاگو نامی روبوٹ شکست دے چکا ہے۔ مصنوعی ذہانت یا روبوٹس کا دخل در معقولات صرف کھیلوں تک محدود نہیں ہے۔ یہ ذہانت بڑے غیر محسوس طریقے سے کم و بیش ہر شعبہ حیات میں داخل ہوچکی ہے۔ بیشتر لوگ یہ جانے بغیر کہ یہی مصنوعی ذہانت ہے اس سے فائدہ بھی ا±ٹھا رہے ہیں۔سمارٹ فونز میں گوگل اسسٹنٹ ”سیری“ بھی نمائند ہ مصنوعی ذہانت ہے۔ موبائل فون کا ایک صارف ایک ویڈیو دیکھتا ہے، ا±سی موضوع اور مزاج کے درجنوں ویڈیوز ا±سے بطور مشورہ پیش کردیئے جاتے ہیں کہ یہ بھی دیکھئے اور یہ بھی۔ کارخانوں میں مزدور کی جگہ مشین کا استعمال (جو کہ جاری و ساری ہے) اور کمپنیوں میں مصنوعات اور صارفین کی تفصیل در تفصیل کو چھاننے، چھانٹنے اور پرکھنے نیز تجزیہ کرنے میں بھی مصنوعی ذہانت اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ روبوٹس کل پرزے جوڑ کر کار تیار کررہے ہیں، کاریں چلا بھی رہے ہیں (سیلف ڈرائیونگ کارز)، صارفین اور گاہکوں سے بات چیت بھی کررہے ہیں (آٹومیٹیڈ کالز)، بینک کیشئر کی خدمات بھی فراہم کررہے ہیں (اے ٹی ایم)، بھاری سامان ڈھو رہے ہیں (فورک لفٹ مشین)، ہوائی جہاز ا±ڑا رہے ہیں (آٹونومس ڈرونس) یا شعبہ طب میں عمل ِجراحت (روبوٹ سرجنز) انجام دینے لگے ہیں۔ زندگی کے بہت کم شعبے ایسے رہ گئے ہیں جو مصنوعی ذہانت کی بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت سے محفوظ ہوں۔ ماضی میں ہر خوبصورت خیال شاعرانہ یا ادیبانہ تخیل تک محدود تھا۔ ٹیکنالوجی کے بغیر ٹیکنالوجی کے مظاہر کا خیال پیش کرکے فکشن رائٹرز نے خوب داد و تحسین وصول کی مگر مصنوعی ذہانت ہر خیال کو حقیقت میں تبدیل کرتی جارہی ہے۔ نیٹ سرفنگ کے دوران بعض اوقات آپ سے پوچھا جاتا ہے کہ کہیں آپ روبوٹ تو نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ روبوٹ وہی کام کرسکتا ہے جو آپ کرنے جارہے ہیں۔ آئندہ زندگی میں ایسے بھی واقعات پیش آسکتے ہیں جن میں ایک انسان کا دوسرے انسان سے رابطہ ہو، وہ ا±سے اپنے ہی جیسا انسان سمجھے مگر وہ روبوٹ نکلے۔ وقت کے ساتھ حقیقی اور مصنوعی ذہانت کے مابین رسہ کشی بڑھتی جارہی ہے جسے ٹیکنالوجی کے ماہرین دوستی قرار دیتے ہیں مگر مشاہدہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت حقیقی و فطری ذہانت کو ”زحمت“ نہ دینے کے مقصد سے عضو معطل میں تبدیل کرتی جارہی ہے۔ غور کیجئے اس عہد میں موبائل کے بغیر زندگی کتنی ادھوری ہے جبکہ ماضی میں جب موبائل نہیں تھا تب بھی زندگی رواں دواں تھی۔ غور اس بات پر بھی کیجئے کہ موبائل نے جتنی آسانیاں بہم پہنچائی ہیں ا±تنی غیر محسوس دشواریاں ہم نے اپنے لئے پیدا کرلی ہیں۔ موبائل گم ہوجائے تو انسان کو اپنی حقیقی میموری کا خیال آتا ہے کہ اس میں تو کچھ بھی محفوظ نہیں ہے! اس بہانے آج ہی اپنا محاسبہ کرلیجئے کہ آپ کو اپنے آس پاس کے کتنے لوگوں کے موبائل نمبر یاد ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے تھنک ٹینک کہلانے والے ادارہ ”فیوچر آف ہیومانٹی انسٹیٹیوٹ“ نے عالم انسانیت کو جن بارہ خطرات کے خلاف متنبہ کیا ہے ان میں ماحولیاتی کثافت، ایٹمی جنگ کا وقوع پذیر ہونا، بڑے آتش فشاں کا پھٹنا، بڑے شہاب ثاقب کا زمین پر گرنا اور قاتل جرثوموں کا معرض وجود میں لایا جانا جیسے خطرات کے علاوہ مصنوعی ذہانت بھی شامل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ خود کو مشینوں کے حوالے کردینے سے کام نہیں چلے گا۔ دانشمندی اس میں ہے کہ مصنوعی ذہانت کو حقیقی ذہانت کے معاون کی حیثیت سے بروئے کار لایا جائے۔ اس سے دشواریاں کم اور آسانیاں زیادہ پیدا کی جاسکتی ہیں ورنہ مشینیں بے روزگاری بڑھائیں گی، حقیقی دماغی صلاحیتوں کی دشمن بن جائینگی (جس کی ابتداء ہوچکی ہے)، انسانی رشتوں اور جذبوں کیلئے چیلنج ثابت ہوں گی، تنہائی و انتشارِ ذہنی میں اضافہ کریں گی اور مصنوعی ذہانت کے فرمانروا حقیقی ذہانت کو اپنا بندئہ بے دام بنالیں گے۔اقبال صدی بھرقبل ہی خبردارکرچکے تھے کہ
ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات