اِنفارمیشن ٹیکنالوجی سے جڑے عمومی تصورات اور اِستعمال کی صورت مبینہ خطرات کے حوالے سے وضاحت کے ’پانچویں مرحلہ‘ میں اُن رجحانات (بھیڑچال) کا جائزہ مقصود ہے‘ جو ’واٹس ایپ (WhatsApp)‘ کی جانب سے صارفین کے کوائف رکھنے سے متعلق حکمت عملی میں مجوزہ تبدیلی کے بعد بطور ردعمل سامنے آیا اور اِس سے ایک قسم کی ہنگامی صورتحال نے جنم لیا جس پر ’اَفراتفری‘ کا غلبہ موجود ہے اور اگرچہ ’واٹس ایپ‘ نے متنازعہ بننے والی حکمت عملی کو واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے لیکن اِس کے باوجود ’بداعتمادی کا سلسلہ‘ جاری ہے۔ صارفین کی تشویش کا بنیادی نکتہ ’رازداری‘ ہے کہ اُن کے کوائف بشمول معلومات و پیغامات محفوظ نہیں رہیں گے اور اُن تک غیر متعلقہ یا اُن کی بناء اجازت حاصل کئے مختلف افراد یا ادارے رسائی حاصل کر لیں گے لیکن انٹرنیٹ کا کوئی بھی ذریعہ اور وسیلہ ایسا نہیں جو 100 فیصد (مکمل) محفوظ ہو اور جس کی تخلیق اور سہولت فراہم کرنے والے بلاقیمت صارفین کے مفادات کے محافظ ہوں۔پیش نظر نکتہ یہ ہے کہ واٹس ایپ کی مذکورہ پرائیویسی پالیسی میں تبدیلیوں سے متعلق اعلان (چار جنوری) کے بعد سے‘ مقبولیت کے لحاظ سے واٹس ایپ کے قریب ترین میسجنگ ایپس ٹیلی گرام (telegram) اور سگنل (signal) نامی ’اِیپلی کیشنز (apps)‘ کو پاکستان سمیت دنیا کے کئی لاکھ نئے صارفین نے حاصل (ڈاؤن لوڈ) کیا ہے۔ یہ سبھی وہ لوگ ہیں جو اپنے پیغامات تک دیگر و غیرمتعلقہ افراد کی رسائی نہیں چاہتے۔ واٹس ایپ سے بداعتمادی کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جہاں ٹیلی گرام اور سگنل اپنی افرادی قوت میں اضافہ کر رہی ہے وہیں سگنل نامی ایپ کی مانگ اِس قدر بڑھی ہے کہ اِسے فراہم کرنے والا سرور (server) بھی بند کرنا پڑا کیونکہ وہ صارفین کا اِس قدر بوجھ برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ انٹرنیٹ اور سمارٹ فونز کے ذریعے مواصلاتی رابطہ کاری کرنے کے خواہشمند صارفین کی جو تعداد ’واٹس ایپ‘ سے اِس لئے بیزاری (لاتعلقی) کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ اِس میں اُن کے کوائف اور بات چیت کو تحفظ (اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن) نہیں اُن کیلئے اطلاع ہے کہ ٹیلی گرام میں بھی ’اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن‘ ہر صارف کو شروع دن سے فراہم نہیں کی جاتی اور تحفظ کی تلاش میں جو صارفین واٹس ایپ سے ٹیلی گرام یا سگنل کے استعمال کی طرف جا رہے ہیں اُنہیں بہت جلد اِس بات سے بھی مایوسی ہوگی کیونکہ ٹیلی گرام اپنی خدمات کی قیمت مقرر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ’اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن‘ کا آسان الفاظ میں مطلب و مقصد یہ ہوتا ہے کہ کسی تحریر (ٹیکسٹ) یا صوتی (آڈیو)‘ ویڈیو پیغام کو بھیجنے والا اور اِسے وصول کرنے والے کے درمیان میں کوئی دوسرا شخص یا ادارہ اِن کی سرگرمیوں کو نہ دیکھ سکے اور اِس رازداری (اعتماد) کو برقرار رکھنے کیلئے موبائل فون ایپ کے میزبان (server) پر بھی ان معلومات و پیغامات کو محفوظ نہیں کیا جاتا بلکہ یہ ایک اور دوسرے یا بہت سارے صارفین کا آپسی معاملہ ہوتا ہے۔ اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن اور سرور پر معلومات ذخیرہ نہ کرنے کا دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی وجہ سے کمپنی کا سرورز ہیک کر لیا جائے تب بھی ہیکرز صارفین سے متعلق معلومات اور اُن کے پیغامات یا رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔ دنیا کے 2 ارب صارفین اگر واٹس ایپ کا استعمال کر رہے تھے تو اِس کی بنیادی خوبی (درپردہ محرک) یہی تھا کہ اُنہیں اپنی معلومات کے محفوظ ہونے کا یقین تھا۔ اِس مرحلہئ فکر پر یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن محفوظ میسجنگ کیلئے ضروری (لازمی) عنصر (جز) ہے۔سگنل اور ٹیلی گرام کے درمیان فرق سمجھنے لائق (قابل توجہ) ہے۔ سگنل ایک کلاسیک میسنجر ہے جس میں اینڈ ٹو اینڈ انکرپڈ بائی ڈیفالٹ ہے جبکہ ٹیلیگرام ایک سوشل نیٹ ورک پلس میسنجر کی طرح ہے جس میں اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن بائی ڈیفالٹ نہیں۔ ٹیلی گرام کی جانب سے اِس بات کو پوشیدہ نہیں رکھا گیا اور اُن سے رابطے (ایف اے کیو) صفحات پر بھی صاف الفاظ میں بیان کر دیا گیا ہے کہ صارف اینڈ ٹو اینڈ انکرپٹڈ چیٹ کے لئے ’سیکرٹ چیٹ (پیغامات کے خفیہ تبادلے)‘ کا طریقہ (فیچر) استعمال کرسکتا ہے۔ فیس بک کے زیرملکیت واٹس ایپ میں بھی گروپ‘ دوستوں اور خاندان کے درمیان چیٹس اینڈ ٹو اینڈ انکرپٹڈ ہیں مگر آنے والے مہینوں میں بزنس چیٹس میں ایسا نہیں ہوگاابھی کسی بزنس اکاؤنٹ پر چیٹ کے دوران اوپر ایک زرد رنگ کا میسج اینڈ ٹو اینڈ انکرپٹڈ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ آسان الفاظ میں سگنل ہمیشہ سے اینڈ ٹو اینڈ انکرپٹڈ ہے۔ واٹس ایپ میں فرینڈز‘ فیملی اور ابھی بزنس میں اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن ہے مگر چند ماہ بعد بزنس چیٹس میں یہ تحفظ نہیں ہوگا۔ فیس بک میسنجر اور ٹیلی گرام بائی ڈیفالٹ اینڈ ٹو اینڈ انکرپٹڈ ہے‘ وہاں اس مقصد کے لیے سیکرٹ چیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ٹیلی گرام میں یہ سہولت صرف دو افراد کے درمیان بات چیت میں ہوتی ہے تو اگر کسی صارف کو میسجنگ ایپ کا انتخاب کرنا ہے اور وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اُس کے پیغامات محفوظ رہیں تو اِس سلسلے میں فیصلہ کرنے سے پہلے تمام عوامل مدنظر رکھنے ہوں گے۔