جنوبی وزیرستان کے قبائلی عمائدین نے آپریشن راہ نجات کے دوران تباہ ہونے والے مکانات ، دکانوں اور کاروباری مراکز کی بحالی کےلئے امدادی رقم نہ ملنے پر احتجاج کیا ہے۔ عمائدین کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان کے علاقے کانی گرام ،سام ون ،سام ٹو ،ٹیپرغائی ، کچہ لنگر خیل ،آسمان منزہ ،ماسپ میلہ ،تنگڑائی اور ملحقہ علاقوں میں آپریشن راہ نجات کے دوران تباہ ہونے والے مکانات اور دکانوں کا سروے چار سال قبل مکمل ہوا تھا تاہم ابھی تک متاثرین کو مکانات کی تعمیر کےلئے امدادی چیک نہیں ملے ہیں۔جس کی وجہ سے متاثرین اپنے مکانات کی از سرنو تعمیر نہیں کرسکے ہیں۔ عمائدین کا کہنا تھا کہ پاک فوج کی قربانیوں سے علاقے میں امن قائم ہوا ہے ۔عوام کی خواہش ہے کہ پاک فوج علاقے کی تعمیر و ترقی کے کاموں کی بھی نگرانی کرے تاکہ ترقیاتی منصوبے معیار کے مطابق مقررہ وقت پر مکمل ہوسکیں۔سیکٹر کمانڈر ساو¿تھ بریگیڈئیر نیک نام نے عمائدین کو یقین دہانی کرادی کہ آپریشن راہ نجات کے دوران تباہ شدہ مکانات کے مالکان کو معاوضہ ادا کرنےکا عمل تیز کردیاگیا ہے۔ اب تک متاثرین میں 15ارب روپے سے زائد کی رقم تقسیم کی گئی ہے ۔جن علاقوں کے سروے ابھی تک نہیں ہوئے ان علاقوں کا جلد ازجلد سروے کرانے کےلئے ٹیمیں بھیجی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ تباہ شدہ مکانات کے سروے کی رپورٹ وہ خود روزانہ کی بنیاد پر لیتے ہیں امید ہے کہ تمام تباہ شدہ مکانات کا سروے اگلے چند ماہ میں مکمل ہو جائے گا ۔اورجن علاقوں کے سروے ہوچکے ہیں ان کے چیک چند دنوں کے اندرلوگوں کو دیئے جائیں گے۔قبائلی علاقوں کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے بعد پاک فوج علاقے میں تعمیر و ترقی کے کاموں پر خصوصی توجہ دے رہی ہے اب تک کئی کلو میٹر سڑکیں، سکول، ڈسپنسریاں اور پل تعمیر کئے گئے ہیں تاکہ ان علاقوں میں معاشی سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوسکیں اور نقل مکانی کرنے والے لوگ اپنے گھروں کو لوٹ سکیں۔خیبر پختونخوا حکومت بھی قبائلی علاقوں کی ترقی کو اپنی ترجیح قرار دے رہی ہے۔ تاہم سرکاری اداروں کا انفراسٹریکچر مکمل نہ ہونے کی وجہ سے آئی ڈی پیز کی بحالی اور ضم اضلاع کی ترقی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔اس کی ایک وجہ وسائل کی کمی ہے خیبر پختونخوا کے سوا کسی صوبے نے قبائلی اضلاع کی ترقی کے لئے این ایف سی سے ملنے والا اپنے حصے کا تین فیصد ابھی تک ادا نہیں کیا۔دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ضم اضلاع میں قائم ادارے اپنی پوری استعداد کے ساتھ کام نہیں کر رہے ۔ اکثر دفاتر میں کام کےلئے ملازمین کی باریاں لگی ہیں جس دفتر میں پچاس ملازمین تعینات ہیں ان میں سے پندرہ بیس ہی دفتر میں موجود ہوتے ہیں۔محکمہ تعلیم اور صحت کی حالت ناگفتہ بہہ ہے جب تک اس طرح کے مسائل کو حل نہیں کیا جاتا اور حالت سدھارنے پر توجہ نہیں جاتی قبائلی علاقوں کو ترقی میں ملک کے دیگر علاقوں کے برابر لانے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنےکا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ کہتے ہیں کہ جب بچہ بھوک کے مارے رونا شروع نہ کرے۔ ماں بھی اسے دودھ نہیں پلاتی۔ یہ ہمارا قومی کلچر بن گیا ہے کہ اپنے آئینی اور قانونی شہری حقوق کےلئے بھی احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے اس کے بغیر حکومت بھی ٹس سے مس نہیں ہوتی۔ضم اضلاع کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے اور لوگوں کو ان کی دہلیز پر زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کےلئے سب سے پہلے مقامی سطح پر لوگوں کو متحد اور متحرک ہونا پڑے گا۔اپنے علاقے کی ترقی میں اپنے حصے کا کردار ادا کرنا ہو گا۔