پشاور کہانی: برہم زدہ شہر۔۔

تالی دونوں ہاتھوں سے بج رہی ہے۔ ایک ہاتھ بلدیاتی منتظم ادارے (ٹاو¿ن ون) کا ہے جبکہ دوسرا ہاتھ تجاوزات قائم کرنے والوں کا ہے۔ ہر سمت تالیوں کی گونج سے ماحول پر ’موسیقیت‘ کا سماں ہے۔ ماضی کی طرح آج بھی تجاوزات کے خلاف کاروائیاں‘ انتظامیہ (ٹاو¿ن ون) کا عزم اور تجاوزات قائم کرنے کا عمل جاری ہے۔ اِس پورے منظرنامے میں انتظامیہ اور قانون شکنوں کے حوصلے جواں و بلند دکھائی دے رہے ہیں لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ تجاوزات کا منظر اور نہ ہی پس منظر تبدیل ہوا ہے۔ تازہ ترین پیشرفت سے ’پشاور کہانی‘ کے تجاوزات سے متعلق باب کو باآسانی سمجھا جا سکتا ہے۔ سات جنوری کے روز ’حسب معمول‘ کاروائی میں ٹاو¿ن ون اہلکاروں نے 5 ہتھ ریڑھیاں قبضے میں لیں اُور اُنہیں ٹاو¿ن ون دفتر پہنچا دیا گیا جہاں 2 ہتھ ریڑھی بانوں کو جرمانہ کرنے کے بعد اپنی اپنی ہتھ ریڑھیوں کے ’باقی ماندہ حصے‘ لیجانے کی اجازت دی گئی لیکن جب اِن دفتری کاروائیوں کے بعد جب وہ ہتھ ریڑھیاں لینے کےلئے پہنچے تو وہاں سے پانچ ہتھ ریڑھیاں بالکل اُسی طرح ’عدم موجود‘ پائی گئیں جس طرح گدھے کے سر سے سینگ غائب ہوتے ہیں! سب حیران و پریشان تھے کہ اس قدر بڑی ہتھ ریڑھیاں کیسے غائب ہو گئیں!؟ خبر ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعے ’جنگل کی آگ کی طرح‘ پھیلی تو ٹاو¿ن ون انتظامیہ نے بھی حیرت و تشویش کا اظہار کیا اِس پوری صورتحال کا سب سے حیران کن پہلو وہ ’دفتری حکمنامہ ہے جس میں 2 چوکیداروں کو ذمہ دار قرار دے نہ صرف مبینہ طور پر حفاظتی انتظامات سخت کی گئی بلکہ چوکیداروں کو ”قبلہ درست کرنے“ کا حکم دیتے ہوئے جاری ’متنبہ ‘ میں کہا گیا کہ 1: وہ آئندہ محتاط رہیں۔ 2: ہر آنے جانے والے کی جامہ تلاشی لیں۔ 3: مرکزی دروازے پر اشیاءکی نقل و حمل کی معلومات درج کی جائیں۔ 4: کھڑکیوں‘ دَروازوں پر نظر رکھی جائے اور 5: ٹاو¿ن ون دفاتر اور اِحاطے نگرانی کےلئے نصب ’کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں کو فعال کیا جائے۔ حیرت انگیز اَمر یہ ہے کہ اِس پوری گہماگہمی میں نہ تو پانچ ہتھ ریڑھیوں کا سراغ ملا کہ اُنہیں زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا اور نہ ہی چوری کی اِس ’انوکھی واردات‘ کے بارے میں پولیس رپورٹ درج کروائی گئی۔لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ جن کی غلطی نہیں اُنہیں غلطی کی سزا دی جائے گی اور جو ہاتھ اِس واردات میں ملوث ہیں اُن کے لئے کوئی حزن‘ کوئی ملال نہیں کیا گیا ہے تجاوزات کے خلاف نام نہادکاروائیوں سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا البتہ وہ سازوسامان جو تجاوزات قرار دے کر قبضے میں لیا جاتا ہے لیکن اُس کا کچھ حصہ‘ یا بڑا حصہ‘ یا مکمل مال ہی چوری ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ جب افرادی قوت‘ گاڑیوں اور ایندھن کے استعمال سے تجاوزات کےخلاف اِس قسم کی کاروائیاں کرنی ہیں کہ بااثر تجاوزات کرنے والے افراد کو معمولی جرمانہ کرکے معاف کر دینا ہے تو پھر ایسی کاروائیاں کسی کام کی نہیں۔پشاور کے مینابازار‘ شاہین بازار‘ گھنٹہ گھر‘ گورا بازار اور دیگر بازاروں میں قبضہ مافیا نے کئی کئی فٹ سڑک پر قبضہ جما رکھا ہے جس کے باعث شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ ضلعی انتظامیہ مو¿ثر کاروائیاں نہیں کر رہی اور امر یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ کے چند اہلکاروں اور تجاوزات کے ذمہ داروں کے درمیان گٹھ جوڑ ہے جس کی شکایت کرتے ہوئے شہریوں نے بتایا ہے کہ ”ضلعی انتظامیہ کی جانب سے بازاروں میں تجاوزات مافیا کے خلاف کاروائی کرنے سے پہلے تاجروں کو پیشگی اطلاع دے دی جاتی ہے‘ جس پر تجاوزات مافیا سامان دکانوں کے اندر کر لیتے ہیں اور ضلعی افسران کے جاتے ہیں ایک پھر تجاوزات قائم کر لیتے ہیں۔“ بنیادی طور پر یہ الزام 5 ہتھ ریڑھیوں کی چوری سے زیادہ سنگین ہے اور اگر یہ درست ہے کہ تو اِس میں ملوث اہلکاروں کو ملازمتوں (یا متعلقہ ذمہ داریوں سے) فارغ کئے بغیر پشاور کی تجاوزات کا مسئلہ پائیدار و یقینی یا حتمی انداز میں حل نہیں ہوگا۔ بھلے ہی ذرائع ابلاغ میں اپنی کارکردگی سے متعلق کتنی ہی خبریں اور مضامین شائع کروا لی جائیں۔ شہریوں کی مشکلات کا تقاضا ہے کہ تجاوزات کی سنگینی کو سمجھا جائے۔