شیراور بکری کی کہانی۔۔۔

وفاقی وزیر خزانہ نے صوبائی حکومتوںکو چینی کی ذخیرہ اندوزی ، مارکیٹ میں اشیائے ضروریہ کی دستیابی اورصارفین کی سہولت کے لئے ملک بھر میں قیمتوں کی مسلسل نگرانی کرنے کی ہدایت کی ہے وزیر خزانہ نے کہا کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر نظر رکھنے اور قیمتوں کے فرق کو دور کرنے کے نظام کو فعال بنانے کے لئے صوبوں کو ضروری مدد فراہم کی جائے گی اورعوام کو مناسب قیمتوں پر آٹے کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے ایک جامع حکمت عملی تیار کی جائےگی۔اس خبرکو پڑھتے ہوئے سکول کے زمانے کی ایک کہانی یاد آگئی جو چوتھی جماعت سے میٹرک تک ہر امتحان میں پوچھی جاتی تھی۔کہانی یہ ہے کہ کسی جنگل میں شیر اور بکری ساتھ رہتے تھے۔ شیر کو کئی دنوں سے شکار نہ ملنے کی وجہ سے بہت بھوکا تھا۔ اتفاق سے دونوں ندی میں پانی پینے گئے۔موٹی تازہ بکری کو دیکھ کر شیر کے رال ٹپکنے لگے اور وہ بکری پرحملہ آور ہونے کا بہانہ ڈھونڈنے لگا۔جب کوئی دوسری ترکیب نہ سوجھی تو اس نے بکری کو متنبہ کیا کہ تمہارے سامنے جنگل کا بادشاہ پانی پی رہا ہے اور تم پانی کو گدلا کررہی ہو۔ بکری نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت!پانی آپ کی طرف سے بہہ کر نیچے میری طرف آرہا ہے میں نیچے رہتے ہوئے اوپر سے آنے والے پانی کو کیسے گدلا کرسکتی ہوں۔بھوک سے نڈھال شیر سے مزید برداشت نہیں ہوسکا اور یہ کہتے ہوئے بکری پر جھپٹ پڑا کہ تمہاری یہ مجال۔ کہ تم جنگل کے بادشاہ سے بحث کر رہی ہو ۔ ہمارے وزیرخزانہ جو کہیںگے وہ پتھر پہ لکیر ہے اس سے دلیل کا تقاضا کیاجاسکتا ہے نہ ہی وہ بحث کو گوارہ کرے گا۔بلاشبہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں پر نظر رکھنا، ذخیرہ اندوزوںاور ناجائز منافع خوروں کے خلاف کاروائی کرنا صوبائی حکومتوں اور ضلعی انتظامیہ کے فرائض اور اختیارات میں شامل ہے۔ لیکن یہاں صورت حال یہ ہے کہ پانی اوپر سے ہی گدلا ہوکر آرہا ہے۔نئے مال سال کے ابتدائی تین ہفتوں کے دوران بجلی اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دو دو مرتبہ اور مائع پٹرولیم گیس کی قیمتوں میں ایک دفعہ اضافہ ہوا ہے، بجلی ، تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ اشیاءکی پیداواری لاگت اورنقل و حمل کے کرائے خود بخود بڑھ جاتے ہیں اوپن مارکیٹ میں بیس کلو گرام آٹے کا تھیلاساڑھے سات سو روپے سے چودہ سو روپے ہوگیا۔کھانے کا تیل 110روپے سے 220 روپے، چینی 55روپے سے 105،پٹرول 65 روپے سے 106، مرغی کا گوشت115روپے سے220روپے فی کلوہوگیا۔دالوں، مصالحوں اور سبزیوں کے دام بھی اسی تناسب سے بڑھ گئے ہیں۔مارکیٹ سے گندم اور گنا کی قیمت خرید وفاقی حکومت مقرر کرتی ہے۔ سارا گند شیر کی طرف سے بہہ کر نیچے آرہا ہے بیچاری بکری خود گدلا پانی پینے پر مجبور ہے۔ اسے مہنگائی کا ذمہ دار ٹھہرانا چوری اور سینہ زوری کے مترادف ہے۔۔مہنگائی کی ہر لہر کے بعد حکمرانوں کی طرف سے یہ مژدہ جانفزاءسنایاجاتا ہے کہ اس سے عام آدمی متاثر نہیں ہوگا۔شاید حکمران اشرافیہ کو عام آدمی سمجھتے ہیں جن کےلئے مہنگائی بلاشبہ ایک مہمل اور بے معنی لفظ ہے۔