اِنتظار کس بات کا ہے؟ تاخیر کا محرک (جواز) کیا ہے؟ دیر ہونے سے نقصان (بحران) کم ہوگا یا اِس کی شدت بڑھے گی؟ کورونا وبا سے محفوظ رہنے اور ممکنہ علاج کے طور پر دی جانے والی ادویات کی فراہمی (vaccination) کا عمل پاکستان میں تاحال شروع نہیں ہوا لیکن اِس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کورونا ویکسین پاکستان کی ضرورت نہیں بلکہ ویکسین نہ دیئے جانے کی 2 بنیادی وجوہات میں پہلی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں دیگر ممالک کی طرح کورونا وبا کا ممکنہ علاج (ویکسین) دریافت کرنے کے لئے نجی و سرکاری محکموں نے تحقیق نہیں کی جیسا کہ کئی ممالک (امریکہ‘ برطانیہ‘ چین‘ جرمنی اور روس) میں دیکھا گیا کہ بیک وقت کئی ادارے کورونا ویکسین کی تلاش میں مصروف تھے اور اِس بات کو اِس قدر اہمیت دی گئی کہ جامعات نے بھی اپنے محدود وسائل اور علم و تجربے کا استعمال کرتے ہوئے عالمی وبا سے نمٹنے کی کوشش میں اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ لائق توجہ ہے کہ کورونا وبا کے منظرعام پر آنے کے بعد دنیا واضح طور پر دو قسم کی سوچ رکھنے والوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک وہ ملک ہیں جہاں کورونا وبا کا علاج دریافت کرنے اور دریافت شدہ علاج کو مزید کارگر و مو¿ثر بنانے کی کوششیں ہو رہی ہیں اور دوسری قسم کے ممالک میں پاکستان شامل ہے جو اِس پوری صورتحال خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور اہل مغرب و امریکہ یا چین کی جانب سے دیکھ رہے ہیں۔ رواں ماہ پاکستان میں ادویات کی تیاری اور فروخت سے متعلق معاملات کے نگران و منتظم وفاقی ادارے ڈریپ نے 2 کمپنیوں (برطانیہ کی ایسٹرا زینیکا اور چین کی سائنوفارم) کو اجازت دی کہ وہ ہنگامی بنیادوں پر پاکستان میں اپنی ویکسین فروخت کریں لیکن اِس منظوری سے یہ بات یقینی نہیں ہو جاتی کہ دونوں کمپنیاں پاکستان کی جانب سے اجازت ملنے کو اپنے لئے خوش قسمتی اور کاروباری موقع سمجھ رہی ہیں یا نہیں۔ قابل ذکر ہے کہ ایسٹرا زینیکا نامی برطانوی کمپنی پہلے ہی بھارت سمیت کئی ممالک سے معاہدے کر چکی ہے کہ وہ انہیں بڑی مقدار میں کورونا ویکسین فراہم کرے گی۔ پاکستان نے یک طرفہ طور پر صرف اجازت دی ہے اور یہ اجازت تسلی کےلئے کافی ہے جبکہ عملی طور پر ویکسین کی دستیابی کےلئے مذکورہ دو یا دیگر کمپنیوں سے ویکسین کی فراہمی کے تحریری معاہدے ہوں گے جو کہ تاحال نہیں ہوئے تاہم پاکستان کو اُمید ہے کہ اِسے چین سے ویکسین مل سکتی ہے لیکن اِس سلسلے میں کسی واضح (حتمی) تاریخ کا اعلان نہیں ہوا ہے۔پاکستان کے پاس حکومتی سطح پر دو طرفہ معاہدے کے علاوہ کورونا ویکسین حاصل کرنے کے دو دیگر طریقے بھی موجود ہیں۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ عالمی ادارہ برائے صحت، گاوی (گلوبل الائنس فار ویکسینز اینڈ امیونیزیشن) اور سی ای پی آئی (کوالیشن فار ایپیڈیمک پریپیئرڈنس انوویشنز) کے اتحاد المعروف ”کوویکس“ کے وسائل پر بھروسہ کیا جائے اور یہ پاکستان کی بیس فیصد آبادی کےلئے ویکسین مہیا کرے۔دیگر کئی ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان نے بھی کوویکس سے اُمیدیں وابستہ کر رکھی ہیں کہ وہ پاکستان کو مفت ویکسین فراہم کرے گا جس کا وہ پابند ہے اور یہی وجہ ہے کہ وزیرِاعظم کے مشیر ڈاکٹر فیصل سلطان نے ذرائع ابلاغ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”کوویکس کے ذریعے چند ہفتوں میں ویکسین مل سکتی ہے۔“ ذہن نشین رہے کہ ’کوویکس ترجیحی پروگرام کے مطابق ہر ملک کو ویکسین فراہم کی جائے گی جبکہ گاوی پہلے ہی سے پاکستان میں کئی بیماریوں کے خلاف ویکسینشن پروگرام چلا رہا ہے اور امکان ہے کہ کورونا کے خلاف ویکسین بھی اسی میں شامل کی جا سکتی ہے اور کوویکس سے ملنے والی ویکسین مرحلہ وار پاکستان کی بیس فیصد آبادی کو فراہم کی جائے گی لیکن کیا یہ ’امدادی ویکسین‘ پاکستان کی ضروریات کے لئے کافی ہو گی اور کیا نجی کمپنیاں سرمایہ کاری کرتے ہوئے پاکستان میں کورونا ویکسین کی فراہمی شروع کریں گے؟ اُمید کی دوسری کرن کے طور پر حکومت کی نظریں نجی کمپنیوں پر جمی ہوئی ہیں جو دیگر ادویات درآمد کرکے اُنہیں ملک بھر میں تقسیم کرتی ہیں اور اِس سلسلے ویکسین کو ذخیرہ کرنے اور اُسے فروخت کرنے کا ایک نیٹ ورک موجود ہے۔ کورونا وبا (کووڈ 19) سے پیدا ہونے والی صورتحال‘ علاج معالجے اور حفاظتی انتظامات جیسے متعلقہ امور کے بارے میں قائم ”نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر“ کے سربراہ وفاقی وزیر اسد عمر ہیں جن کا یہ بیان ’آن دی ریکارڈ‘ موجود ہے کہ ”پاکستان میں صوبائی حکومتیں اور نجی ادارے ڈریپ کی منظوری کے ساتھ کورونا کی ویکسین خریدنے کے لئے مکمل طور پر آزاد ہیں۔“ تو آخر نجی ادارے اور سرمایہ کار سامنے کیوں نہیں آ ہے؟ افسوسناک ہوگا اور اِس سے بڑی بدقسمتی کوئی دوسری ہو ہی نہیں سکتی کہ محض (سیاسی) مخالفت کی وجہ سے کورونا وبا سے پیدا ہونے والے بحران کو نجی شعبے سے خاطرخواہ توجہ نہیں مل رہی تاکہ تحریک انصاف کو اِس محاذ پر بھی ناکام ثابت کیا جا سکے!