خیبرپختونخوا پولیس کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال کے دوران صوبے کے مختلف اضلاع بشمول ضم شدہ اضلاع میں دہشت گردی کے156واقعات رونما ہوئے جن میں95 سابقہ فاٹا کے قبائلی اضلاع اور61 صوبے کے دیگر علاقوں میں رونما ہوئے صوبائی پولیس سربراہ ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی کے مطابق دہشت گردی کے واقعات میں ملوث 381 ملزمان گزشتہ سال کے دوران گرفتار کئے گئے جبکہ95 پولیس اور انسداد دہشت گردی فورس کے ساتھ مقابلوں میں جان سے گئے 84 افراد کو مختلف عدالتوں سے سزائیں دلوائی گئیں جبکہ صوبے میں12ماہ کے دوران2300 سے زائد انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کئے گئے ثناءاللہ عباسی کے مطابق2020میں ٹارگٹ کلنگ‘ اغواءاور بھتہ خوری کے واقعات میں2019 کے مقابلے میں کافی کمی آئی اغواءکی وارداتیں6سے کم ہو کر1 بھتہ خوری کے واقعات 36 سے کم ہو کر32 اور2020 میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات2019 کے مقابلے میں35 سے کم ہو کر23 ریکارڈ کئے گئے دہشت گردی کے مجموعی واقعات البتہ2019 کے104 کے مقابلے میں2020 میں156 تک پہنچ گئے مگر صوبائی پویس سربراہ کے مطابق ان میں وہ واقعات بھی شامل ہیں جن میں پولیس کے بارود‘ خودکش جیکٹ یا دیگر مواد سمیت دہشت گردوں کو قتل یا گرفتار کیاگیا یا انکے منصوبے ناکام بنائے ڈاکٹر ثناءاللہ عباسی کے مطابق پولیس نے گزشتہ سال کے دوران فنانشل ایکشن ٹاسک فورس(FATF) کے اہداف کے حصول کی خاطر اٹھائے گئے اقدامات کے سلسلے میں516 مقدمات درج کئے 751 افراد کو گرفتار کیاگیا128 افراد کو عدالتوں سے سزائیں دلوائی گئیں جبکہ25 کروڑ روپے سے زائد ان ملزمان سے برآمد کئے گئے دیکھا جائے تو دہشت گردی کے مجموعی واقعات کے سوا تمام اعدادوشمار حوصلہ افزاءہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ2009 اور2010 والی صورتحال کے مقابلے میں نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ ملک بھر میں امن وامان کی صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے جس کی بنیادی وجہ پولیس ‘ فوج‘ ایف سی اور دیگر اداروں کے جوانوں اور افسران کی قربانیاں ہیں جن کی بدولت ملک میں امن وامان کیلئے 10‘15 سالوں کے مقابلے میں کہیں بہتر ہے ایک وقت تو یہ تھا کہ صبح اٹھتے ہی اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش کی جاتی کہ رات کو یا صبح سویرے کہیں دھماکہ تو نہیں ہوا بچوں کو سکول بھیجنے کے بعد سارا دن دھڑکا لگا رہتا والدین انکی بخیریت واپسی کی دعائیں کرتے رہتے تعلیمی اداروں اور کاروباری مراکز میں سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھیں خدا کے فضل و کرم اور جوانوں کی قربانیوں اور ہمت سے صورتحال ماضی قریب کے مقابلے میں کافی حوصلہ افزاءہے مگر اداروں اور حکومت کو ان اکادکا واقعات کا بھی نوٹس لینا چاہئے جو وقفے وقفے سے ملک بھر‘ خیبرپختونخوا اور خصوصاً چند سابقہ قبائلی اضلاع میں رونما ہوتے آرہے ہیں ملک میں مکمل امن ہوگا تو تعلیمی ادارے علم کی روشنی پھیلائیں گے کاروبار مستحکم ہوگا لوگوں اور ملک کے حالات بہتر ہونگے معاشرے میں ترقی اور خوشحالی آئے گی اس خطے پر طویل عرصے سے جنگ اور دہشت گردی کے جو بادل چھائے ہیں خدا کرے کہ وہ مکمل طورپر چھٹ جائیںمکمل امن کےلئے ضروری ہے کہ پسماندہ اور قبائلی اضلاع میں تعلیم‘ صحت ‘ مواصلات اور دیگر سہولیات کے ساتھ ساتھ وہاں تیز رفتار ترقی اور کاروبار اور ملازمت کے مزید مواقع کیلئے اقدامات کئے جائیں جبکہ دوسرے اضلاع کی طرح وہاں پولیس کو مضبوط اور خودمختار بنانے کیساتھ ساتھ ان کو اسلحہ‘ وسائل اور اختیارات دیئے جائیں تاکہ مقامی مسائل کو مقامی اہلکار روایات اور قانون کے مطابق حل کریں۔