اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے پانچ سال سے لاپتہ شہری کی عدم بازیابی کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ شہریوں کے لاپتہ ہونے کی کوئی ذمہ داری نہیں لیتاتو پھر وزیر اعظم اس کے ذمہ دار ہوں گے، اس ملک کا کیا بنے گا۔یہ نظام کیسا چلے گا، پاکستان کی خدمت قانون کے مطابق ہی ہونی ہے اس سے باہر کچھ نہیں عدالتوں کو تو برا بھلا کہا جاتا ہے ہم تو کام کرنےوالے ججوں کے خلاف بھی کاروائی کرتے ہیں، کوئی سرکاری افسریا جج کام نہیں کرسکتا تو استعفیٰ دے کر گھر جائے، سیکرٹری بنتے ہوئے دل خوش ہوتا ہے لیکن کام کی باری آتی ہے تو ذمہ داری لینے کےلئے تیار نہیںاسلام آباد ہائی کورٹ کے فاضل جج نے ہمارے معاشرے کی جو تصویر کشی کی ہے وہ ایک تلخ حقیقت ہے۔ملک و قوم کی خدمت پر مامور سرکاری محکموں کے افسران خود کو حاکم اور عوام کو محکوم تصور کرتے ہیں ‘موجودہ حکومت نے سرکاری محکموں میں اصلاحات کا جو پروگرام شروع کیا تھا۔ اس کی راہ میں ہر موڑ پر رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں اپنی تنخواہوں، الاﺅنسز اور مراعات میں اضافے کے لئے قلم چھوڑ ہڑتال، احتجاجی مظاہرے، ریلیاں ، دھرنے اور لانگ مارچ کئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے تین سال گزرنے کے باوجود اصلاحاتی پروگرام کے دس فیصد اہداف بھی حاصل نہیں ہوسکے۔پی ٹی آئی حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے پولیس کو عوام کا خادم اور مددگاربنایاہے، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔آج بھی مظلوم داد رسی کے لئے تھانے جانے سے ڈرتا ہے ‘ہر سرکاری محکمے میں دیانت دار، فرض شناس، ایماندار اور بے داغ لوگ بھی موجود ہیں جن کی دیانت داری کی مثالیں دی جاتی ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور ذاتی طور پر تمام خوبیوں کا حامل ہونے کے باوجود وہ اپنے محکمے پر اثر انداز نہیں ہوسکتے کیونکہ بنیادی خرابی نظام میں موجود ہے جسے ٹھیک کرنے پر آج تک کسی نے توجہ نہیں دی۔جسٹس کیانی کے یہ ریمارکس سوفیصد درست ہیں کہ اگر ہم موت پر یقین رکھیں اور خود کو اللہ کے سامنے جوابدہ تصور کریں تو کوئی شخص رشوت اور کمیشن لینے، کسی کا حق مارنے، ناجائز دولت جمع کرنے، کسی پر ظلم کرنے اوراپنے فرائض سے کوتاہی برتنے سے پہلے سو بار سوچے گا کہ اس نے اپنے ایک ایک عمل کا خالق کے سامنے جواب دینا ہے۔جب دل میں جوابدہی کا خوف پیدا ہوگا تو ساری برائیاں خود بخود ختم ہوجائیں گی اور معاشرے کی اصلاح ہوگی۔ یہ کام صرف حکومت یا عدالتیں نہیں کرسکتیں۔ اس کے لئے والدین، اساتذہ، علمائے کرام، دانشوروں اور سول سوسائٹی کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ نصاب تعلیم بدلنا ہوگا۔جزا و سزا کا سخت نظام نافذ کرنا ہوگا۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ملک گیر تحریک شروع کرنی ہوگی۔سماج دشمنوں کو عبرتناک سزائیں دینی ہوں گی۔تاکہ دوسرے لوگ عبرت پکڑیں۔