جامعات: تلاش ِگمشدہ۔۔۔۔

”جامعات: بحران در بحران“ کی ذیل میں جن مالی مشکلات کا اجمالی ذکر کرتے ہوئے متعلقہ وفاقی و صوبائی فیصلہ سازوں کی توجہ ایک اہم و دیرینہ مسئلے کی جانب مبذول کرنے کی کوشش کی گئی تھی جو اگرچہ اُن کے علم میں ہے لیکن چونکہ جامعات کے مالی بحران کا تعلق انسانوں (تدریسی اور معاون تدریسی عملے) سے ہے اِس لئے بنا تاخیر اور پائیدار بنیادوں پر حل ہونا چاہئے ۔ لمحہ فکریہ ہے کہ جامعات کا تدریسی و غیرتدریسی عملہ بنیادی طور پر 2 طرح کا ہوتا ہے ایک مستقل اور دوسرے غیرمستقل ملازمین۔ سرکاری اداروں میں اکثر ملازمین کی خدمات ایک خاص مدت کےلئے حاصل کی جاتی ہے لیکن ایک مرتبہ عارضی ملازمت ملنے کے بعد ایسے ملازمین کو فارغ کرنا آسان نہیں ہوتا اور یہی وجہ ہے کہ ہر سیاسی دور میں ایسی عارضی بھرتیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے جن کے باعث جامعات پر مالی بوجھ بڑھتا رہتا ہے۔جامعات کے مالی بحران کو حل کرنے کےلئے افرادی وسائل کی حسب ضرورت تعداد رکھنا ہوگی جبکہ یکساں ضروری ہے کہ مستقل ملازمین کو دی جانے والی تنخواہوں اور مراعات پر نظرثانی کرنا ہو گی کہ ایک طرف کم سے کم پندرہ ہزار روپے ماہانہ تنخواہ دینے کےلئے پیسے نہیں لیکن دوسری طرف تنخواہوں اور مراعات کے علاوہ سمر کیمپ جیسی سرگرمیوں پر ہر سال کروڑوں روپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔خیبرپختونخوا کی جامعات میں قدیم ترین سرکاری جامعہ ’پشاور یونیورسٹی‘ ہے جس کے مالی بحران کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملازمین کو صرف اُن کی بنیادی تنخواہ دی جائے گی اور اِس فیصلے سے ملازمین کو تحریری طور پر آگاہ کرنے کا سلسلہ اکیس جنوری دوہزاراکیس سے شروع کر دیا گیا ہے۔ لائق توجہ ہے کہ ملازمین کو گھر کا کرایہ‘ ایڈہاک‘ پی ایچ ڈی‘ انٹرٹینمنٹ‘ آمدورفت کا الاو¿نس اور دیگر مراعات یکم فروری دوہزار اکیس کے روز تنخواہ کے ساتھ حسب معمول نہیں دی جائیں گی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا یہ مو¿قف حسب حال ہے کہ تدریسی عملے کو اپنی جیب سے چائے کھانا اور مہمان نوازی کرنا پڑے گی‘ اگرچہ یہ اقدام صرف پشاور یونیورسٹی کی طرف سے کیا گیا ہے اور صوبے کی دیگر سرکاری جامعات کی جانب سے ابھی اِس قسم کا کوئی حکمنامہ سامنے نہیں آیا لیکن پشاور یونیورسٹی کے فیصلہ سازوں نے مالی بحران سے دوچار سرکاری جامعات کو ایک راستہ ضرور دکھا دیا ہے کہ اگر وہ مستقل و عارضی ملازمین کی تعداد‘اُن کی تنخواہیں اور مراعات کم نہیں کر سکتے تو کم سے کم یہ تو کیا جا سکتا ہے کہ مالی بحران کے دوران اُنہیں بنیادی تنخواہ دی جائے تاکہ دونوں فریقین کا سلسلہ ہائے روزوشب کسی نہ کسی صورت چلتے رہیں۔تین ہفتے پہلے اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور نے صوبائی حکومت کو تحریری طور پر آگاہ کیا تھا کہ اُسے سالانہ 70 سے 80 کروڑ روپے خسارے کا سامنا ہے اور یہ خسارہ اس قدر شدید ہے کہ ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے بھی وسائل دستیاب نہیں رہے۔ اسلامیہ کالج یونیورسٹی کا قبل ازیں کے تعلیمی سال کے دوران مالی خسارہ 30 کروڑ روپے تھا جو ایک سال میں دوگنے سے بھی زیادہ ہو گیا ہے اور اِس کی وجہ پنشن اکاو¿نٹس کو بتایا جا رہا ہے کہ ہر سال یونیورسٹی پر پنشن کی مد میں مالی بوجھ بڑھ رہا ہے‘ مالی بحران کی دوسری وجہ کورونا وبا ہے جس کی وجہ سے جامعہ کے طلبہ نے اپنی فیسیں بروقت ادا نہیں کیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ سرکاری جامعات کا مالی بحران پہلی بار منظرعام پر نہیں آیا بلکہ اگر پشاور یونیورسٹی کی بات کی جائے تو یہ سال 2013ءسے جاری ہے اور ہر سال کم یا زیادہ امدادی رقم دے کر معاملہ رفع دفع کردیا جاتا ہے۔ ضرورت جامعات کے مالی بحران کو پائیدار بنیادوں پر حل کرنے کی ہے کیونکہ اِس سے ہزاروں کی تعداد میں طلبہ کا مستقبل وابستہ ہے اور جہاں کسی جامع کا تدریسی و معاون تدریسی عملہ ہی مطمئن نہیں ہوگا وہاں تدریسی عمل میں رکاوٹیںآئیں گی ۔