اپوزیشن اتحاد میں پھوٹ

 وزیر اعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے کے معاملے پر اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک الائنس دو گروپوں میں بٹ گئی۔پی ڈی ایم میں شامل 5 جماعتوں کے قائدین ان ہاؤس تبدیلی کے مخالف ہیں جبکہ چار قائدین نے تحریک عدم اعتماد لانے کے حوالے سے بلاول بھٹو کی تجویز کی حمایت کردی سابق صدر آصف زرداری نے گزشتہ ماہ ہی پی ڈی ایم کو حکمت عملی بدلنے کا مشورہ دیا تھا۔مسلم لیگ کا موقف حقائق سے قریب تر ہے اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے تو اپوزیشن کے پاس حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا جواز باقی نہیں رہتا۔لیگی قیادت جلد بازی میں اپنے سارے پتے شو کرنے کے بجائے مرحلہ وار حکومت پر دباؤ ڈالنے کے حق میں ہے۔یہ حقیقت ہے کہ جلسے جلوسوں، لانگ مارچ، ریلیوں اور دھرنوں سے حکومتیں نہیں گرائی جاسکتیں۔موجودہ حالات میں ملک سیاسی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہو سکتا امریکہ میں سیاسی تبدیلی کے ساتھ خطے کی جیوپولے ٹیکل صورتحال بھی تبدیل ہورہی ہے۔ بھارت کے ساتھ کشیدگی میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان کے اندردہشت گرد دوبارہ سر اٹھارہے ہیں۔ دنیا بھر میں تباہی پھیلانے والی عالمی وباء کورونا کا خطرہ بھی ابھی نہیں ٹلا۔ بین الاقوامی سطح پر معاشی کساد بازاری سے پاکستان بھی بری طرح متاثر ہورہا ہے۔ روزگار کے مواقع کم اور مہنگائی کی شرح بڑھ رہی ہے۔معاشی طور پر مستحکم ممالک بھی مالی طور پر شدید دباؤ کا شکار ہیں ایسی صورت حال میں ایک منتخب حکومت کو گرانے کے بعد دوبارہ انتخابات کرائے بھی گئے تو کسی پارٹی کو قطعی اکثریت ملنے کا ایک فیصد بھی امکان نہیں ہے۔ بعید نہیں کہ حکومت گرائے جانے پر عوام کی ہمدردیاں پی ٹی آئی کو حاصل ہوجائیں اور وہ زیادہ اکثریت کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں آجائے۔موجودہ حکومت اپنے اقتدار کے تین سال مکمل کرچکی ہے۔ جس تبدیلی کا اس نے عوام سے وعدہ کیاتھا۔ وہ ابھی تک تشنہ تکمیل ہے۔ حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے میں مزید دو سال باقی ہیں۔ اگر ان دوسالوں میں وہ عوام کی توقعات پر پورا نہ اترسکی تو اگلے انتخابات میں عوام بیلٹ کے ذریعے خود انہیں مسترد کردیں گے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کے فورم پر قوم کو درپیش مسائل کا کوئی حل باہمی مشاورت سے نکالیں۔موجودہ صورتحال میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، جماعت اسلامی، جے یو آئی سمیت کوئی بھی جماعت جادو کی چھڑی گھما کر قوم کو درپیش مسائل حل نہیں کرسکتی۔اپوزیشن کو اعتراض ہے کہ قومی ادارے انتخابی عمل میں مداخلت کرتے ہیں۔ اس مسئلے کوبھی پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر قانون سازی کے ذریعے حل کیاجاسکتا ہے عوامی مینڈیٹ سے منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کو نظر اندازکرکے قومی مسائل سڑکوں اور چوراہوں پر حل کرنے کی کوشش غیر دانشمندانہ ہے۔اپوزیشن اتحاد کو پہلے اپنی ترجیحات کا تعین کرنا چاہئے۔ لانگ مارچ، قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفے، تحریک عدم اعتماد سمیت متعددحکومت مخالف اقدامات پر پی ڈی ایم میں واضح اختلافات موجود ہیں۔اب بھی موقع ہے کہ اپوزیشن کو اپنی سیاسی ساکھ برقرار رکھنے کیلئے اپنی پالیسیوں اور حکمت عملی پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔تمام پتے کھیلنے کے باوجود ناکامی سے دوچار ہونا سیاسی خود کشی کے مترادف ہوگا۔