20سکے اور جوتا 


 کہتے ہیں ایک ملک کے بادشاہ نے اپنے عوام کو آزمانے کا ارادہ کیا تاکہ معلوم کر سکے کہ وہ اپنے حقوق کے بارے میں کتنے آگاہ ہیں اور کیا وہ اپنے حق کیلئے آواز اٹھا سکتے ہیں۔ وزراء کے مشوروں کے بعد بادشاہ نے ہر اس شخص پر 5سکے ٹیکس لگا دیا جو علی الصبح کام کیلئے جاتے ہوئے یا واپس آتے ہوئے دارالخلافہ کے باہر بہنے والے دریا کے پل سے گزرتا‘ شہری جب پل عبور کرکے شہر سے باہر جاتے یا واپس آتے تو پل پر کھڑا دربان ان سے 5سکے جمع کرتا اور سرکاری خزانے میں ڈالتا‘ کئی دن گزر گئے مگر بادشاہ کو کوئی شکایت موصول نہ ہوئی‘ چند دن بعد حکومت نے ٹیکس دگنا کر دیا اور ہر کوئی آتے جاتے 10سکے جمع کرتا اور اس طرح معمول کے مطابق کاروبار یا نوکری پر جاتا اور شام کو گھر واپس آتا۔ چند ہفتے بعد بادشاہ نے ٹیکس کی شرح 20سکے کرائی مگر اس کے باوجود کسی کو کوئی اعتراض نہ ہوا اگرچہ لوگوں نے آپس میں چہ میگوئیاں کیں مگر ان کی آواز دبی دبی تھی‘ بادشاہ کے محل تک وہ اپنی آواز پہنچنے نہیں دے رہے تھے کہ کہیں بادشاہ اور اس کے وزراء اور امراء کے غیض و غضب کا شکار نہ ہو جائیں‘ اک دن بادشاہ نے وزراء سے مشورہ کیا کہ آ خر لوگ کیوں احتجاج نہیں کرتے اور ظلم سہنے کے باوجود آواز بلند نہیں کرتے‘ وزراء نے مشورہ دیا کہ بادشاہ سلامت 20سکوں کے ساتھ ساتھ دربان کو ہدایت کی جائے کہ ہر باہر جانے اور اندر داخل ہونے والے کو ایک ایک جوتا بھی رسید کیا جائے‘ ہو سکتا ہے اس سے عوام جاگ جائیں۔ اگلے ہی دن جوتا لگانے کا آغاز ہوا‘ دربان 20سکے جمع کرتا اور شہریوں کو ایک جوتا بھی رسید کرتا۔ شام ہوئی تو بادشاہ کے محل کے باہر بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے‘ بادشاہ نے آواز یں سنیں تو خوش ہوا کہ بالآخر اس کے عوام اٹھ کھڑے ہو گئے ہیں اور اپنا حق مانگنے محل کے باہر جمع ہو گئے ہیں۔ وزراء کو حکم دیا گیا کہ عوام سے چندبڑوں کو بادشاہ کے سامنے دربار میں پیش کیا جائے تاکہ وہ خود بول سکیں، چند لمحوں میں وزراء عوام میں سے بڑوں کا ایک وفد لے کر اندر داخل ہوئے، بادشاہ نے وفد سے پوچھا کہ آپ لوگ اور ملک کے شہری کیا چاہتے ہیں اور کیوں محل کے سامنے جمع ہوگئے ہیں۔ عوام کے نمائندوں نے جواب دیا، حضور ہم پر پانچ سکے کا ٹیکس نافذ کیا گیا جسے بعد میں دس اور بیس کر دیا گیا مگر کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔ مگر اب دربان ان کوآتے جاتے ایک جوتا بھی رسید کرتا ہے۔ بادشاہ نے پوچھا کیا عوام کو ٹیکس پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہ صرف جوتا رسید کرنے کے خلاف ہیں۔ نمائندوں نے جواب دیا حضور ان کو جوتا کھانے پر بھی کوئی اعتراض نہیں،ان کا مطالبہ یہ ہے کہ چونکہ پل پر صرف ایک دربان کھڑا ہوتا ہے جو پیسے بھی جمع کرتا ہے اور جوتا بھی رسید کرتاہے۔ صبح اور شام کے اوقات میں لوگوں کی لمبی قطار جمع ہوجاتی ہے۔ ان کی گزارش ہے کہ اگر دربانوں کی تعداد ایک سے زیادہ کی جائے تو عوام سے ٹیکس جمع کرنے اور ان کو جوتا رسید کرنے میں وقت ضائع نہیں ہوگا اور لوگ بروقت اپنے روزگار کو جاسکیں گے اورواپس وقت گھر پہنچ پائیں گے۔ جن ممالک میں اس طرح کے عوام ہوتے ہونگے وہاں کیا حال ہوتا ہوگا‘ اس کہانی کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ عوام کو اپنی آواز حکومت تک پہنچانی چاہئے‘ اس مقصد کیلئے میڈیا کے تمام ذرائع حکومت اور عوام کے درمیان ایک رابطے کا اہم حصہ ہے جس کے ذریعے جہاں حکومت کوعوامی مشکلات کا اندازہ ہوتا ہے اور ان کے خیالات اور احساسات سے آگاہی ہوتی ہے وہاں حکومت اپنے منصوبوں اور عوامی بہبود کے حوالے سے کئے کاموں کی بھی اس انداز سے تشہیر کرسکتی ہے کہ اس سے عوام خاطر خواہ فائدہ اٹھا لیں۔حکومت کی حیثیت عوام کے بڑے کی ہوتی ہے اور اس کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ عوام کے مسائل کو بروقت حل کرے۔اس وقت جو مسائل عوام کو درپیش ہیں ا ن میں مہنگائی سر فہرست ہے جس کاتوڑ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اور یہ اس وقت ہی ممکن ہے جب طلب اور رسد کے اصولوں کومد نظررکھا جائے اور اشیائے ضروریہ کی کمی نہ ہونے پائے۔