ذہن نشین رہے کہ کورونا وبا کی مبینہ دوسری لہر (حالانکہ یہ پہلی لہر مارچ دوہزاربیس کا تسلسل ہی ہے) موسم سرما اور فضائی آلودگی کے باعث زیادہ تیزی سے پھیل رہی ہے اور نومبر دوہزاربیس کے وسط تک پاکستان میں یومیہ دوہزار اموات تک بات جا پہنچی تھی۔ پچیس جنوری کے روز جاری ہوئے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں میں 23 اموات ہوئیں جبکہ آخری مرتبہ اِس قدر اموات 10نومبر دوہزاربیس کے روز ہوئی تھیں۔ کورونا کے باعث مجموعی طور پر پاکستان میں 11 ہزار 318 اموات (پچیس جنوری دوہزار اکیس تک) ہو چکی ہیں!خیبرپختونخوا میں کورونا متاثرین کی کل تعداد (پچیس جنوری دو ہزاراکیس تک) 26 ہزار 532 رہی جن میں ضلع پشاور کے 26 ہزار 297 مریض شامل ہیں۔ پشاور کی طرح صوبائی منظرنامہ بھی اپنی جگہ تشویشناک ہے کہ خیبرپختونخوا میں ہر 100میں سے 40.12 افراد کو علم ہے کہ اُنہیں کورونا وبا لاحق ہو چکی ہے تاہم اِس تشویشناک صورتحال کا ایک حوصلہ افزا(مثبت) پہلو بھی ہے کہ کورونا سے متاثرہ مریضوں کی بڑی تعداد صحت یاب ہوئی ہے اور اگرچہ پاکستان میں کورونا ویکسین کی فراہمی تاحال نہیں ہوئی لیکن مختلف ادویات کے تجربات اور بیماریوں کے خلاف جسمانی قوت مدافعت کے عمل دخل سے (جاری دوسری لہر کے دوران) کل 60 ہزار 222 میں سے 23 ہزار 758 کورونا مریض صحت یاب ہو چکے ہیں اور اِن صحت یاب ہونے والوں میں بھی اکثریت کا تعلق ضلع پشاور ہی سے ہے جہاں اگرچہ عوامی اور عمومی سطح پر احتیاطی تدابیر پر خاطرخواہ سنجیدگی سے عمل درآمد نہیں ہو رہا لیکن صحت یاب مریضوں کو یہ باریک نکتہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اُن کی صحتیاب (ریکوری) مشروط و مشکوک ہے اور اگر احتیاط نہیں کریں گے تو (خدانخواستہ) اُنہیں کورونا کی شدت کا سامنا دوسروں کی نسبت زیادہ کرنا پڑ سکتا ہے خیبرپختونخوا میں حکومت نے ’معیاری علاج معالجے کی سہولیات اور نگہداشت‘ کی وجہ سے کورونا مریضوں کے پشاور کی جانب رُخ کرنے کو روکنے کیلئے ڈیڑھ ہزار سے زائد سرکاری علاج گاہوں میں کورونا کے شعبے (وارڈز) قائم کئے ہیں اور اِس مقصد کیلئے ضلعی ہیڈکواٹرز ہسپتالوں کے علاؤہ تدریسی ہسپتالوں میں بھی الگ تھلگ شعبے بنائے گئے ہیں تاہم اِس کے باوجود کورونا سے معلوم متاثرہ اور ممکنہ متاثرین دیگر اضلاع سے پشاور کا رخ کرتے ہیں اور اِس رجحان کی حوصلہ شکنی باوجود کوشش بھی نہیں ہو رہی۔ فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ پشاور کے تینوں بڑے ہسپتالوں (لیڈی ریڈنگ‘ خیبر ٹیچنگ اور حیات آباد کمپلیکس) میں دیگر امراض کا علاج معالجہ اِس لئے متاثر ہو رہا ہے کیونکہ کورونا وبا سے متاثرین اور علامات رکھنے والے ممکنہ مریضوں کا پہلا‘ فوری اور واحد انتخاب پشاور ہی ہوتا ہے اور اِس رجحان کی وجہ سے صوبائی فیصلہ ساز محکمہئ صحت کے ماہرین کی جانب سے تجاویز اور آرأ کی روشنی میں جس قدر بھی تدابیر بناتے ہیں وہ سب کی سب ناکافی و ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔ عجیب صورتحال ہے کہ خیبرپختونخوا کے طول و عرض بشمول ضلع پشاور کے باشندے ’کورونا وبا‘ کو تاحال ’افواہ‘ سمجھتے ہیں اور اِس کی حقیقت پر یقین نہیں کرتے لیکن جب اُنہیں مرض لاحق ہو جاتا ہے یا کسی دوسرے مرض کی علامات میں نزلہ یا زکام ظاہر ہوتا ہے تو اُن کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور قریبی علاج گاہ کا رخ کرنے کی بجائے مریض بمعہ تیماردار دوسرا سانس پشاور پہنچ کر لیتے ہیں‘ پشاور کے ہسپتالوں میں مریضوں کیلئے بستر اور مستند معالجین کا عددی شمار بھی زیادہ ہے جبکہ نجی علاج گاہیں اور اَدویات کا حصول بھی نسبتاً آسانی سے ہوتا ہے۔ اِن سبھی محرکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے صوبائی فیصلہ سازوں کو ایسی حکمت عملیاں وضع کرنی چاہیئں جن کے تحت دور دراز اضلاع میں بھی صحت کی سہولیات کا معیار اور مقدار (حسب ِآبادی) فراہم ہو سکیں۔