معاملہ تکنیکی سہولیات اور فنی صلاحیت کے فقدان کا ہے بصورت دیگر کوئی اَمر مانع نہیں کہ ’آن لائن تعلیم‘ کی طرح ’آن لائن امتحانات‘ کا انعقاد بھی کیا جائے لیکن سرکاری جامعات اور ہر درجہ تعلیمی اداروں (سکولوں کالجوں) نے ’آن لائن تعلیم‘ کے نام پر جس انداز سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی اُور جس انداز میں حکومت بھی ’شریک جرم‘ رہی اُسے مدنظر رکھتے ہوئے یہی مناسب تھا کہ بچوں کو بنا امتحانات نئے درجات میں ترقیاں دیدی جائیں اور کورونا کی پہلی لہر (مارچ سے ستمبر دوہزاربیس) یہی ہوا جبکہ کورونا وبا کی نومبر دوہزاربیس سے جاری مبینہ دوسری لہر کے دوران فیصلہ کیا گیا ہے کہ بنا امتحانات طلبہ کو اعلیٰ درجات میں ترقی نہیں دی جائے گی اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کا اِس بات پر بھی اتفاق رائے سامنے آیا ہے کہ امتحانات حسب معمول طلبہ کی جسمانی حاضری کے ساتھ لئے جائیں گے جبکہ طلبہ کا مو¿قف ہے کہ اگر تعلیم آن لائن ہے تو امتحانات آن لائن کیوں نہیں؟پچیس جنوری رات گیارہ بج کر چوبیس منٹ پر‘ وفاقی وزیرتعلیم شفقت محمود نے اپنے ٹوئیٹر اکاو¿نٹ (@Shafqat_Mahmood) سے یکے بعد دیگرے 2 پیغامات جاری کئے جس میں طلبہ اُور چند جامعات کی جانب سے ’آن لائن امتحانات‘ لینے سے متعلق مو¿قف کا تذکرہ کیا اور تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”یہ فیصلہ جامعات نے کرنا ہے کہ اُنہیں امتحانات کس صورت میں لینے ہیں۔“ تاہم اُنہوں نے واضح کیا کہ اعلیٰ تعلیم کے وفاقی نگران ادارے ’ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ اِی سی)‘ کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں کہ وہ تعلیمی عمل اُور امتحانات کے سلسلے میں جامعات سے بات چیت کریں۔ وفاقی وزیر تعلیم کے دوسرے ٹوئیٹر پیغام کا پہلا جملہ اُس حقیقت کا بیان ہے‘ جسے حکومت سمیت کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا اُور قریب ایک سال کی آن لائن تعلیم کے بعد وفاقی وزیر نے جامعات کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ (آن لائن امتحانات کا) مطالبہ کرنے والوں کو خود سے پوچھنا چاہئے کہ کیا اُن کے پاس طلبا و طالبات کی اِس قدر بڑی تعداد کا ’آن لائن امتحان‘ لینے کی صلاحیت (تکنیکی مہارت اور وسائل) بھی موجود ہیں۔“ بنیادی طور پر سوال یہ بنتا ہے کہ کورونا وبا کے دورانیئے میں اِحتیاطی تدابیر اِختیار کرتے ہوئے تعلیمی ادارے بند کئے گئے اور آن لائن تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا جس کے لئے نہ تو پہلے سے تیاری تھی۔ تدریسی عملے کی تربیت کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی گئی اُور نہ ہی ’آن لائن تعلیم‘ جیسے تجربے کے حاصل (کارکردگی کے احتساب) پر غور کو ضروری سمجھا گیا۔ فیصلہ ساز آج بھی ’آن لائن تعلیم‘ کے موافق نصاب کو مرتب کرنے کو ضروری نہیں سمجھتے اُور نہ ہی کسی ایسے آن لائن ذریعے اُور وسیلے پر اتفاق ہو سکا ہے جو یکساں استعمال کیا جائے۔ حکومت کی جانب سے ٹیلی سکول (پاکستان ٹیلی ویژن سکول) کے نام سے خصوصی ٹیلی ویژن چینل کی نشریات شروع کی گئیں جو ناکافی کوشش تھی کیونکہ ایک چینل سے پورے ملک اور مختلف درجات کے طلبہ کی ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں تھیں۔ اِس سلسلے میں بھارت کے ہوئے تین قسم کے آن لائن تعلیم کے تجربات کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ 1: حکومت نے سیٹلائٹ (خلائی سیارے سے) نشریات کے ذریعے پہلی (درجہ¿ اوّل) سے بارہویں (دوزدہم) جماعت تک کے طلبہ کے لئے الگ الگ ٹیلی ویژن چینل (نشریاتی وسائل) فراہم کئے۔ جامعات‘ کالجز اور تحقیق کرنے والوں کے لئے الگ چینلز بنائے گئے اور اِن چینلوں کو یک طرفہ نہیں بلکہ دوطرفہ بات چیت (کیمونیکیشن) کا ذریعہ بنایا گیا۔ 2: نجی ٹیلی ویژن چینلوں نے اپنے صارفین سے تعلق برقرار (بنائے) رکھنا اور کورونا وبا کے دوران اپنی سماجی ذمہ داری (سوشل ریسپانسبلٹی) ادا کرنے کے لئے ’ڈائریکٹ ٹو ہوم (DTH)‘ نشریاتی وسائل کا کچھ حصہ تعلیمی سرگرمیوں کے لئے مختص کیا اُور یوں تفریحی چینلوں کے ساتھ تعلیمی نشریات کا سلسلہ شروع ہوا۔ نجی تعلیمی اِداروں نے حکومت کے برعکس اپنی تمام تر توجہ صرف اہم مضامین (اَنگریزی‘ ریاضی اُور انفارمیشن ٹیکنالوجی) پر مرکوز رکھی جو زیادہ کامیاب (کارگر) ثابت ہوئی۔ 3: نجی اداروں نے موبائل فون ایپس کے ذریعے آن لائن تعلیم کے نت نئے وسائل متعارف کروائے۔ موبائل فون ایپس کے استعمال سے نہ صرف کسی ’کلاس روم‘ کی طرح طلبہ کی حاضری ممکن ہوتی ہے بلکہ کسی ایک کلاس روم کی طرح طلبہ ایک دوسرے سے بات چیت بھی کر سکتے ہیں اور کسی ایک وقت میں حاضر طلبہ ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکتے ہیں۔ بھارت میں آن لائن تعلیم کے شعبے میں ہونے والی مذکورہ تینوں کوششوں کا ایک خاص پہلو یہ بھی ہے کہ کورونا وبا سے قبل ہی حکومت اور نجی شعبے نے ’آن لائن تعلیم‘ کی ضرورت (اور طلب) کو محسوس کر لیا گیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ کئی ملکی و غیرملکی اداروں نے بھارت کی قریب ایک ارب چالیس کروڑ آبادی جو کہ دنیا کی کل آبادی کے 17.7فیصد ہے‘ کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے اِس کاروباری موقع سے فائدہ اُٹھایا۔ ذہن نشین رہے کہ بھارت میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد قریب 3 کروڑ 75 لاکھ ہے!پاکستان میں تعلیم کے تینوں اسلوب 1: روایتی طرز تعلیم۔ 2: آن لائن طرز تعلیم اور 3: آن لائن امتحانات کو الگ الگ دیکھا جا رہا ہے جبکہ بنیادی طور پر یہ ایک ہی حقیقت اور ضرورت کے تین رُخ ہیں اور اِن میں سے کسی ایک کی بھی کامل فراہمی اُس وقت تک ممکن نہیں ہو سکتی جب تک وقتی تقاضوں‘ طلب و مانگ اور درس و تدریس کے شعبے میں آسانیوں کو متعارف نہ کروایا جائے۔ انٹرنیٹ پر منحصر ’اِنفارمیشن ٹیکنالوجی‘ جیسی آسانی اپنی جگہ موجود ہے اور اِسے صرف ’کورونا وبا (covid-19) کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ عمومی حالات میں بھی اِس آسانی سے استفادہ‘ اِس کی ترقی و سرپرستی‘ تقسیم اُور بالخصوص شعبہ¿ تعلیم کو مکمل ’آن لائن‘ کرنے کی ضرورت ہے۔