فالتو سرکاری اراضی کا بہتر استعمال۔۔۔

وفاقی حکو مت نے دارالحکومت اسلام آباد اور تمام صو بو ں مےں سر کاری اراضی پر ہاﺅ سنگ پراجےکٹ کی تعمےر کا فےصلہ کےا ہے۔منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے وفاقی سےکر ٹر ی ہاﺅ سنگ اےنڈ ورکس کی سر براہی مےں سات رکنی اربن ری جنرےشن بورڈ قائم کےا گےا ہے بورڈ کے ممبران مےں ڈی جی فےڈرل گورنمنٹ اےمپلائز ہاﺅ سنگ اتھارٹی،اےم ڈی پاکستان ہاﺅ سنگ فاﺅنڈےشن، ڈپٹی چےئر مےن نےا پاکستان ہاﺅ سنگ اےنڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی،ڈی جی پاکستان پبلک ورکس ڈےپارٹمنٹ،متعلقہ صو بے کا چےف سےکر ٹری اورصوبائی ترقیاتی اداروں کے ڈی جی شامل ہےں،مسودہ قانون کے مطابق بورڈ کو وسےع اختےارات دےئے گئے ہےں،ان مےں سر کاری اراضی کی ترقی، تجاوزات کا خاتمہ، آبادی کےلئے تمام ضروری سہولےات کی فراہمی ،سرکاری اراضی کو لےز پر دےنا ےا فروخت کر نا شامل ہے۔کسی بھی تارےخی عمارت کی تزئےن و آرائش کر کے اسے اصل حالت مےں لاےا جائے گا،بورڈ مختلف مسائل کے حل کےلئے سب کمےٹےاں قائم کر سکے گا، بورڈ کے احکامات پر عملدر آمد نہ کر نا قابل تعزےر جرم ہو گا جس پر دو لاکھ روپے جرمانہ اور تےن ماہ قےد ےا دونو ں سزائےں دی جا سکتی ہےں اورمسلسل خلاف ورزی پر ےہ جرمانہ پانچ لاکھ روپے ےومےہ بھی ہو سکتا ہے،بورڈ کے فےصلے کے خلاف اپےل کےلئے اےک اےپلٹ بورڈ تشکےل دیاجائے گا جس کا چےئر مےن اور ڈپٹی چےئر مےن جوڈےشل اور لےگل سروس سے ہو گا۔پاکستان ریلویزاور محکمہ اوقاف سمیت مختلف سرکاری اداروں کی ملکیتی ملک بھر میں لاکھوں کروڑوں ایکڑ زمین کئی عشروں سے بیکار پڑی ہے۔ بعض سرکاری املاک پر قبضہ گروپ نے اپنا تسلط جمارکھا ہے۔مختلف شہروں میں سرکاری ارضی پر رہائشی اور کمرشل عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں۔ جن کے کرائے آج بھی پچاس سال قبل کی شرح سے وصول کئے جارہے ہیں۔ جن لوگوں کے نام پر یہ رہائشی اور کمرشل عمارتیں اور دکانیں الاٹ کی گئی ہیں انہوں نے ان عمارتوں کو کروڑوں میںکرائے پر چڑھا رکھا ہے۔آج بھی اوقاف اور دیگر محکموں کے رہائشی مکانات کے کرائے دو تین سو روپے اور دکانوں کے کرائے سو ڈیڑھ سومقرر ہیں۔ جن کے نام پر دکان الاٹ کی گئی ہے اس نے بیس تیس ہزار روپے ماہانہ کرائے پر دیدیا ہے۔ اس سے قومی خزانے کو ماہانہ اربوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ملک بھر میں موجود بے کار سرکاری اراضی پر رہائشی عمارتوں، کمرشل پلازوں، تجارتی و کاروباری مراکز ،پارکنگ اور پارکس کی تعمیر سے لاکھوں لوگوں کو مناسب کرائے پر سرکاری مکانات دستیاب ہوں گے۔کاروباری سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔اور قومی خزانے میں سالانہ اربوں روپے جمع ہوں گے۔سرکاری اراضی پر تجاوزات کے خاتمے، قبضہ مافیا سے اراضی واگذار کرنے اور اس زمین کو علاقے کی ضروریات کے مطابق استعمال میں لانے کےلئے بااختیار بورڈ کا قیام بھی مناسب فیصلہ ہے لیکن بورڈ کے اختیارات اور اقدامات کی مانیٹرنگ ضروری ہے کیونکہ ہمارے ہاں بدقسمتی سے قومی وسائل کو لوٹنا لوگ اپنا پیدائشی، آئینی اور قانونی حق سمجھتے ہیں۔جو شخص جتنا بااختیارہوتا ہے وہ اتنی ہی کرپشن کرتا ہے۔