پچاس ہزار سے زیادہ نوحے لکھنے والا‘ دس ہزار سے زیادہ منقبت اور پانچ ہزار سے زائد سوز و سلام لکھنے والے معروف مرثیہ گو شاعر ڈاکٹر ریحان اعظمی (پیدائش: سات جولائی اُنیس سو اٹھاون۔ وفات: چھبیس جنوری دوہزاراکیس) کی رحلت سے دنیائے مرثیہ نگاری کی سوگواری میں مزید اضافہ گیا ہے۔ مرثیہ نگاری سے قبل ریحان اعظمی نغمہ نگار رہے اور اُنہوں نے غزل و گیت کے میدانوں میں اپنی خداداد صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے بعد خود کو صرف اور صرف مرثیہ نگاری تک محدود کرلیا تھا۔ جیسے لکھنو کے معروف مرثیہ گو شاعر میر اَنیس (پیدائش 1803ئ۔ وفات 1874ئ) نے غزل کو ترک کرکے صرف مرثیہ گوئی کو چنا تھا۔ ڈاکٹر ریحان نے بھی میر انیس ہی کی طرح مرثیہ نگاری کا انتخاب کیا اور پھر مرثیے کو نئی بلندی اور مترنم جہت دی۔ تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اِبتدا¿ میں مرثیہ نگاری اَدبی صنف میں شمار نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی ہر شاعر مرثیہ نگاری کو ضروری (عقیدت کے اظہار کے لئے لازم) سمجھتا تھا لیکن آج صورتحال مختلف ہے کہ اُردو‘ فارسی اور عربی کے ہر مسلم و غیرمسلم شاعر کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ حمد‘ نعت‘ منقبت‘ سلام‘ قصیدہ اور مرثیہ نگاری جیسی اصناف سخن میں بھی طبع آزمائی کرے۔ مرثیہ نگاری کو اِس بلندی و مقصدیت سے روشناس کرانے میں ماضی و حال کے شعرا¿ کی شعوری کوششوں کا بڑا عمل دخل ہے جن میں ریحان اعظمی کو نمایاں مقام حاصل ہے کہ اُن کی بے لوث محنت سے مرثیہ نگاری آج اُردو ادب کا صرف حصہ ہی نہیں بلکہ سرمایہ کہلاتی ہے۔ مرثیہ نگاری کی یہ عظمت و وقار اور سربلندی میر انیس اور مرزا سلامت علی دبیر (پیدائش 1803ءوفات 1875ئ) کے دم سے ہی ہے۔ ریحان اعظمی نے انیس کے نقش قدم پہ چلتے ہوئے مرثیہ میں اُن عناصر کو شامل کیا جس کی ابتدا¿ میر انیس نے کی تھی۔ مرثیہ میں ایسے کردار و واقعات کو شامل کیا جو محسوسات انسانی کو زیادہ متاثر کرتے تھے جیسا کہ بہن کا بھائی کی محبت میں قربان ہونا۔ ”نہ ملے گا تجھے شبیر سا بھائی زینب ....ڈھونڈنے جائے گی گر‘ ساری خدائی زینب۔“ ریحان اعظمی نے مرثیہ نگاری میں ایسے واقعات کو شامل کیا جس سے نفسیاتی اور انسانی پہلو زیادہ نمایاں تھے اور یہی وجہ ہے کہ ریحان اعظمی کے خیالات سے مرثیہ خوانی میں ہر مذہب و ملت کے افراد کو روحانی اور اخلاقی کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ اُن کے مرثیوں کو پڑھنے والے ندیم سرور کا 1990ءکی دہائی میں ایک نوحہ ”نہ رو زینب نہ رو“ بہت معروف ہوا جسے عالمی شہرت ملی اور دور حاضر کے مرثیہ نگاری میں گرانقدر اضافہ ہے۔ یہ ایک ایسا کلام تھا جو ہر اُردو جاننے والے اور ہر مذہب اور مسلک کے فرد کو یاد رہا۔ آج بھی اگر اُردو جاننے والے سے کسی نوحہ کو سننے یا مشہور نوحہ کا ذکر کریں تو مذکورہ نوحہ ہی سرفہرست ہے۔ ڈاکٹر ریحان اعظمی نے تیرہ سال کی عمر میں نوحہ نگاری کا آغاز کردیا تھا اس سے قبل وہ صرف گیت اور غزلیں لکھا کرتے تھے پھرکراچی کی تنظیم الحسینی سے وابستہ ہوگئے تھے اور نوحے لکھنے لگے۔ 1986ءانہوں نے ندیم سرور کے لئے 2 نوحے لکھ کر دیئے ‘ یہ دونوں نوحے کیسٹ میں آئے اور مقبول عام ہوگئے۔ یوں ندیم سرور اور ریحان اعظمی کا نام ایک ہوگیا اس کے بعد اردو نوحہ دنیا میں جہاں بھی سنا جاتا۔ اس میں ندیم سرور کی آواز اور ریحان اعظمی کا کلام شامل ہوتا تھا رفتہ رفتہ ایسے ایسے کلام لکھے گئے جو ندیم سرور کی وجہ شہرت بن گئے۔معروف خطیب علامہ طالب جوہری (پیدائش 1939ءوفات 2020ئ) اکثر کہا کرتے تھے کہ ”میں حیران ہوتا کہ ہر نوحہ خواں آخر ریحان اعظمی کا لکھا ہوا کیوں پڑھنا چاہتا ہے اور وہ ہر ایک نوحہ خاں کی طلب وہ کیسے پوری کر رہے ہیں تو جب ایک مرتبہ میں نے انہیں نجف اشرف میں باب العلم سے علم کی خیرات مانگتے دیکھا‘ تو مجھے میرے تمام سوالوں کا جواب مل گیا اور میں نے ریحان سے کہا اب معلوم ہوگیا تمہیں یہ خزانہ کہاں سے ملتاہے!“ نوحہ‘ سوز خوانی اور منقبت کے عظیم استاد سبط جعفر شہید (پیدائش 1916ءوفات 1986ئ)‘ مرحوم ریحان اعظمی کے دوست اور معلم تھے اُنہوں نے ریحان اعظمی کے بارے کہا تھا کہ ”میں نے اپنی زندگی میں اتنا تیز اور اتنا زیادہ کلام کہنے والا دوسرا کوئی شاعر نہ دیکھا اُور نہ ہی سنا ہے۔“ ڈاکٹر ریحان اعظمی کی زبان میں لکنت تھی مگران کی مرثیہ گوئی اور مرثیہ نگاری حیران کن روانی رہی کہ ایک بار علامہ حسن ظفر نقوی نے کہا کیا کوئی کمپیوٹر اس کے ذہن میں نصب ہے جو چلے جاتا ہے کیاکہ کوئی بھی موضوع ہو جیسا بھی ماحول ہو‘ کسی کی شان ہو ریحان اعظمی کو مہلت درکار نہیں ہوتی وہ مرثیہ لکھنے کے لئے کسی خاص کیفیت روشنی تنہائی کے محتاج نہیں ہوتے ہیں۔“ ڈاکٹر ریحان اعظمی نہیں رہے لیکن وہ اپنے پُراثر کلام (مرثیہ نگاری میں کی گئی محنت) کے باعث ہمیشہ زندہ رہیں گے اور ان کے تحریر کردہ مرثیے تاقیامت اہل دل کی محفلوں اور مجالس کا حصہ رہیں گے۔ ”ریحان میرا نامہ¿ اعمال ہے نوحہ .... پروانہ¿ جنت میرے اشعار رہیں گے۔“