آزادی¿ اظہار‘ آزادی¿ صحافت اور ذرائع ابلاغ سے متعلق قواعد و ضوابط (نظم و ضبط) کو ایک دوسرے میں گڈ مڈ کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے سچ اور جھوٹ میں تمیز کرنا مشکل ہو گئی ہے۔ حکومت جہاں کہیں ادارہ جاتی قواعد و ضوابط کو لاگو کرنے کےلئے نرمی یا سختی سے کاروائی کرنا چاہتی ہے یا اصلاحات و ترامیم کے ذریعے ادارہ جاتی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلانا چاہے تو اُسی لمحے آزادی¿ اظہار و صحافت خطرے میں پڑ جاتی ہے جیسا کہ تحریک انصاف کی جانب سے قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) میں ایک مسودہ¿ قانون منظوری کے لئے پیش کیا گیا جس کا بنیادی مقصد ٹیلی ویژن چینلوں سے متعلق شکایات کی تحقیقات کرنے کا اختیار (power) متعلقہ حکومتی ادارے کو دینا مقصود تھا لیکن چونکہ سینیٹ میں فی الوقت حزب اختلاف کی اکثریت ہے اِس لئے حکومت کی اِس کوشش کو (رائے شماری سے) ناکام بنا دیا گیا۔ تحریک انصاف کے لئے مشکل یہ ہے کہ اِسے قوانین و قواعد میں موجود سقم دور کرنے کےلئے ایوان بالا میں خاطرخواہ (فیصلہ کن) اکثریت حاصل نہیں اور جب تک یہ اکثریت حاصل نہیں ہو جاتی اُس وقت تک ماضی میں بنائے جانے والے قوانین کے مطابق ہی حکومتی اداروں کو چلانا پڑے گا‘ جن میں دانستہ ایسی شقیں رکھی گئیں ہیں جن سے نجی اداروں کے مفادات کا حکومت کی نسبت زیادہ تحفظ ہوتا ہے اور یہ صورتحال کسی ایک ادارے سے متعلق درپیش نہیں بلکہ کئی محکموں کی صورتحال بھی کم و بیش ایک جیسی ہی ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی سمجھتی ہے کہ حکومت ذرائع ابلاغ پر زیادہ دسترس (کنٹرول) حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ وہ اِس کے ذریعے اختلافی نکتہ¿ نظر کو دبا سکے۔ اِس مو¿قف کو پیش کرتے ہوئے سینیٹر شیری رحمان نے تجویز دی ہے کہ ذرائع ابلاغ اور صحافیوں کی دو نمائندہ تنظیموں ’پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن‘ اور ’پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس‘ کے نمائندوں سے مشاورت کی جائے۔ اپنی تجویز میں پیپلزپارٹی کی سنجیدگی اور تحفظات اپنی جگہ توجہ طلب ہیں کہ خود پیپلزپارٹی کے دور میں نہ تو ذرائع ابلاغ کے اداروں کی نمائندہ تنظیم اور نہ ہی قومی سطح پر صحافیوں کی نمائندہ مذکورہ تنظیم سے صلاح مشورہ کیا جاتا تھا بلکہ پاکستان میں ذرائع ابلاغ سے جڑے معاملات کو آمرانہ انداز میں چلایا جاتا رہا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو آج کسی ترمیم یا اصلاح کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔ تحریک انصاف کی جانب سے ’پیمرا‘ کو زیادہ بااختیار بنانا کسی ایک ادارے کی کارکردگی اور اُس کی جوابدہی کےلئے ضروری ہے لیکن اگر ایک سے زیادہ ادارے ذرائع ابلاغ سے متعلق امور کی نگرانی کریں گے تو اِس سے کسی بھی نتیجے تک پہنچنا ممکن نہیں ہو سکتا۔الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کے ادارے دو طریقوں سے قواعد کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ اجازت نامہ (لائسنس) حاصل کرنے سے پہلے جن حکومتی شرائط اور قواعد و ضوابط کو تسلیم کیا جاتا ہے اُن کی پاسداری نہیں کی جاتی اور اِس میں مالیاتی ذمہ داریاں بھی شامل ہیں جنہیں بروقت ادا نہیں کیا جاتا۔ اِن دونوں صورتوں سے عہدہ برآءہونے کے لئے ضروری ہے کہ الیکٹرانک ذرائع ابلاغ سے متعلق جملہ امور بشمول اُن سے متعلق شکایات نمٹانے اور خلاف ورزی کی صورت جرمانے عائد کرنے کا اختیار کسی ایک ادارے جیسا کہ پیمرا کے پاس ہونا چاہئے لیکن اگر موجودہ صورتحال برقرار رہتی ہے کہ جس میں ایک سے زیادہ ادارے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد یقینی بنانے کے لئے نظر رکھے ہوئے ہیں تو ٹیلی ویژن چینلوں کے خلاف شکایات اور اُن پر خاطرخواہ کاروائیاں کسی ایسے نتیجے تک نہیں پہنچ سکتیں‘ جس میں ریاست کا فائدہ ہو۔انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں الیکٹرانک ذرائع ابلاغ کی اہمیت زیادہ ہے‘ جو کسی بھی ملک کی ساکھ میں اضافہ یا اُس میں کمی کا مو¿جب بن سکتے ہیں اور اِسی اہم کردار کو مدنظر رکھنے کےلئے قواعد و ضوابط تشکیل دیئے جاتے ہیں لیکن اگر کسی شعبے سے متعلق نگرانی کا نظام کمزور ہو اور اُس پر سزا¿ و جزا¿ کا تصور بھی غالب نہ ہو تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک کی داخلہ و خارجہ پالیسی کے اہداف حاصل نہیں ہو پاتے ۔