وفاقی حکومت نے مختلف وزارتوں، ڈویژنوں اور سرکاری محکموں میں 70 ہزار خالی آسامیاں ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے117سرکاری محکمے یا تو ختم یا دوسرے محکموں میں ضم کئے جائیں گے۔ محکموں کے خاتمے اور انضمام کے بعد وفاقی حکومت کے محکموں کی تعداد 441 کے بجائے 324رہ جائیگی ملازمین کے بنیادی پے سکیل،تنخواہوں و مراعات کے بارے میں بھی پے اینڈ پنشن کمیشن فروری 2021 ء میں رپورٹ پیش کریگا حکومت کی قائم کردہ ٹاسک فورس برائے کفایت شعاری و تنظیم نو نے پیش رفت کی رپورٹ تیار کرلی ہے رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وفاقی اداروں کی اقسام 14 سے کم کرکے ایگزیکٹو ڈیپارٹمنٹ،خود مختار محکموں اور قانونی محکموں پر مشتمل تین مختلف کٹیگریزمیں تقسیم کی گئی ہیں۔رولز اینڈ بزنس میں کمی لانے اور سادہ بنانے کیلئے کام جاری ہے۔نیشنل انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ فروری میں کام شروع کرے گا رپورٹ کے مطابق سول انتظامیہ کے اخراجات جاریہ کم سے کم سطح پر منجمد کئے جارہے ہیں وزارتوں اور ڈویژنوں کو اپنے ماتحت محکموں میں ایم پی سکیل اور سپیشل پے سکیل پر دنیا بھر سے قابل،ماہر پروفیشنل بھرتی کرنے کیلئے اشتہارات دینے کی اجازت دے دی گئی ہے‘حکومتی اخراجات کم کرنے کے لئے کرائے کی عمارتوں میں قائم سرکاری دفاتر کو حکومت کے ملکیتی کوہسار بلاک میں منتقل کیا گیا ہے۔ محکموں کے انضمام کے تحت کامرس اور ٹیکسٹائل ڈویژن اور پوسٹل اینڈ کمیونیکیشن ڈویژن کو آپس میں ضم کیا گیا ہے۔حکومت کے ناقدین 70ہزار خالی اسامیوں کے خاتمے کے فیصلے کو ملازم کش پالیسی سے تعبیر کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے پانچ سالوں میں ایک کروڑ افراد کو ملازمتیں دینے کا وعدہ کیا تھا۔ گزشتہ تین سالوں میں معاشی بحران کی وجہ سے مختلف محکموں سے لاکھوں ملازمین کو فارغ کردیا گیا۔ اب سرکاری ملازمتوں پر بھی چھری پھیرنے کا اہتمام کیاجارہا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے چند سرکاری محکموں میں 70ہزار اسامیاں خالی ہونے کے باوجود جب کام کا حرج نہیں ہورہا۔ تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ان اسامیوں کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے۔ ماضی میں حکمرانوں نے اپنے سیاسی مفادات اور کمیشن کی خاطر سرکاری محکموں میں تھوک کے بھاؤ بھرتیاں کیں۔ جس کی وجہ سے محکموں پر ملازمین کا اضافی بوجھ پڑگیا۔ محکمے سال میں جتنا کماتے تھے۔اس سے تین گنا ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات پر خرچ ہونے لگے نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان ریلوے، سٹیل مل اور پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنزجیسے منافع بخش محکمے خسارے میں چلے گئے۔ان کے پاس ملازمین کو تنخواہ دینے کے لئے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے اور حکومت کو سالانہ ان محکموں کے لئے اربوں روپے کے بیل آؤٹ پیکج دینے پڑ رہے تھے۔ سٹیل مل کئی سالوں سے بند ہے اور اس کے ملازمین گھر بیٹھے تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں۔پاکستان جیسا ترقی پذیر ملک لوگوں کو گھر پر بٹھا کر تنخواہیں دینے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ آج ہماری معیشت کی حالت دگرگوں،قوم پر بیرونی و اندرونی قرضوں کا بے تحاشا بوجھ اسی وجہ سے ہے کہ ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے بھی آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک، عالمی بینک، پیرس کلب اور دیگر مالیاتی اداروں سے بھاری شرح سود اور شرائط پر قرضے لینے پڑتے تھے۔یہ فطری امر ہے کہ جب باپ محنت مشقت کرکے مہینے میں بیس ہزار روپے کماتا ہے تو میاں بیوی اور تین بچوں کا خرچہ بمشکل اٹھاسکتا ہے۔ جب آٹھ دس بچے پیدا کئے جائیں تو گھر میں فاقوں کی نوبت آنا لازم ہے۔ افراد کی طرح حکومت کو بھی چادر دیکھ کر اپنے پاؤں پھیلانے چاہئیں۔وفاقی سطح پر 441سرکاری محکموں کا وجودقرضوں میں جکڑی ریاست پر ناقابل برداشت بوجھ ہے۔حکومت کفایت شعاری مہم کو قومی مفاد میں ان تمام محکموں تک توسیع دینی چاہئے۔قومی وسائل پر ملازمین کی فوج ظفر موج پالنے کی روایت اب ختم ہونی چاہئے۔