امریکہ کے 46 ویں صدر جوبائیڈن اپنے عہدے کاحلف اٹھاچکے ہیں ان کے دور صدارت کا آغازپندرہ صدارتی حکم ناموں سے ہوا ہے ان میں متنازعہ سفری پابندیوں کا خاتمہ، پیرس ماحولیاتی معاہدہ کی بحالی کے بل پر دستخط بھی شامل ہیں جوبائیڈن کے زیادہ تر حکم نامے سابق صدر ٹرمپ کے متنازعے پالیسیوں کو ختم کرنے سے متعلق ہیں‘واضح رہے کہ ہر آنے والا امریکی صدر اسی طرح شروع کے دنوں میں بہت سارے حکمنامے جاری کرتا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ایسا کیا تھا‘ نو منتخب صدر کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ مفاہمت پسند سیاستدان ہیں جو بائیڈن ایک ایسے دور میں امریکہ کے صدر بنے ہیں جب کوڈ کی عالمی وباء زوروں پر ہے اور امریکہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے جوبائیڈن کی جانب سے پہلے روز صدارتی حکم نامے کے مطابق ملک بھر میں وفاقی مقامات اور بین الریاستی سفر کے دوران ہر فرد کے لئے ماسک پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ جوبائیڈن عوام کو ویکسین کی فراہمی کا عمل تیز کرنا چاہتے ہیں اور اپنی صدارت کے ابتدائی 100 دن کے دوران ویکسین لگوانے والے افراد کی تعداد 10 کروڑ تک دیکھنا چاہتے ہیں جو بائیڈن نے اپنے ابتدائی حکم نامے میں عالمی ادارہ صحت میں واپس جانے کا اعلان کیا ہے سابق صدر ٹرمپ نے کورونا وائرس کے دوران چین کی سخت باز پرس نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے اس ادارے سے علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا تھا جوبائیڈن کو اپنے وژن پر مکمل طور پر عمل درآمد کیلئے کانگرس سے کئی قوانین کی منظوری لینا ہوگی جن میں ایک اعشاریہ نوٹریلین ڈالر کے اخراجات کے قانون کی منظوری بھی شامل ہے جس کے تحت تمام شہریوں کو 1400 ڈالر کی رقم کی ادائیگی بھی ہے۔ جوبائیڈن نے اپنے ابتدائی حکم نامے میں ماحولیاتی تحفظ کے پیرس معاہدے میں دوبارہ شمولیت کا اعلان کیا ہے اس عالمی معاہدے کا ایک بڑا مقصد دنیا کے درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکنا ہے سابق صدر ٹرمپ نے بعض ممالک کے شہریوں پر جن سفری پابندیوں کا اعلان کیا تھا جو بائیڈن نے انہیں ختم کردیا۔ جوبائیڈن نے امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کے منصوبے کو روک دیا ہے جوبائیڈن انتظامیہ نے چین کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات بہتر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ بحال کرنے کا بھی اشارہ دے چکے ہیں۔ جوبائیڈن نے ٹرمپ کی پالیسیاں پلٹ دیں، پیرس ماحولیاتی معاہدہ بحال کر دیا، میکسیکو کی سرحد پر دیوار کا منصوبہ روک دیا عالمی ادارہ صحت کا بائیکاٹ بھی ختم کردیا،تاہم ایران، چین، افغانستان سے متعلق حکمت عملی پر فی الحال خاموشی اختیار کی گئی ہے،نئے امریکی صدر جو بائیڈن معتدل مزاج سیاستدان ہیں،عالمی امن کے قیام کے خواہاں ہیں جبکہ سابق امریکی صدر کا زیادہ تر جھکاؤ بھارت کی طرف تھا۔ جبکہ نئے امریکی صدر نہ صرف جبوبی ایشیاء بلکہ پوری دنیا کے امن کے خواہاں ہیں اور پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقات کے خواہاں نئے امریکی صدر جوبائیڈبن نے اپنے خطاب میں کہا کہ امریکہ کو بڑھتی ہوئی سیاسی انتہا پسندی، سفید بالادستی اور اندرون دہشت گردی کا سامنا ہے ہمیں ان سب کا مقابلہ کرنا ہے ہمیں بہت کچھ ٹھیک کرنا ہے، وزیر اعظم عمران خان نے جوبائیڈن کو امریکی صدارت کا عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد دی ہے اور کہا کہ میں جوبائیڈن کے ساتھ کام کرنے کا منتظر ہوں امید ہے کہ جوبائیڈن کے دور میں پاکستان اور امریکہ کی شراکت داری مزید مضبوط ہوگی، پاکستان امریکہ کے ساتھ تجارت، معیشت، ماحولیاتی تبدیلی، انسداد کرپشن، خطے میں امن کے فروغ سمیت کئی اہم امور پر کام کرنا چاہتے ہیں، وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ پاکستان کھبی بھی علاقائی تنازعات کا حصہ نہیں بنے گا ہم صرف امن کے شراکت دار بنیں گے نئے امریکی صدر سے دنیا کو بڑی توقعات وابستہ ہیں، یاد رہے کہ جوبائیڈن سابق امریکی صدر اوبامہ دور میں آٹھ سال نائب صدر رہ چکے ہیں وہ ایک زیرک سیاستدان ہیں پاکستان کے دورے کرچکے ہیں حکومت پاکستان نے انہیں ہلال پاکستان سے نوازا ہے انہوں نے ہمیشہ کشمیریوں کے موقف کی تائید کی ہے انہیں خارجہ پالیسی میں مہارت حاصل ہے اور دو بار امریکی سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے صدر رہ چکے ہیں اس بات کے امکانات بھی ہیں جوبائیڈن مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے پر توجہ دیں گے جوبائیڈن امریکہ اور چین کے تعلقات میں بہتری لانے کی سوچ کے حامل ہیں، امید کی جاتی ہے کہ چین کے معاملہ پر جو بائیڈن سابق امریکی صدر ٹرمپ کی طرح جانبدارانہ اور جارحانہ رویہ نہیں اپنا ئیں گے البتہ جوبائیڈن کی طرف سے معاشی اور سفارتی میدان میں چین پر دباؤ ڈالے جانے کے امکانات ضرور ہیں۔ نامزد امریکی وزیر دفاع سابق جنرل لوئیڈ آسٹن نے پاکستان کو افغان امن عمل کے لئے ناگزیر قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا کردارانتہائی اہم ہوگا ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ افغان امن عمل میں بگاڑ کی کوششیں کرنے والے کرداروں کو روکنے کے لئے بھی اقدامات کئے جائیں گے۔جوبائیڈن انتظامیہ نے چین کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات بہتر کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ بحال کرنے کا بھی اشارہ دیا گیا ہے، واضح رہے کہ امریکہ کی ماضی کی حکومتیں انڈیا کے ساتھ تعلقات بہتر کرتی آئی ہیں لیکن اس کے باوجود جوبائیڈن اور ان کی نائب صدر کملا ہیرس نے کشمیر میں انسانی حقوق پر مذمتی بیانات جاری کئے تھے سوال یہ ہے کہ اب اقتدار میں آنے کے بعد ان کے بیانات کسی قسم کی عملی صورت حال اختیار کرتے ہیں افغانستان سے امریکی افواج کا مکمل انخلاء ہوتا ہے یا وہ افغان طالبان سے مذاکرات کے انجام تک اس بارے میں کوئی اور فیصلہ کرتے ہیں اس بارے میں تاحال خاموشی ہے، پاک امریکہ تعلقات میں بہتری کیلئے ہمارے دفتر خارجہ کو ایک ٹھوس لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت ہوگی جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو سچ یہ ہے کہ اسے افغان امن عمل میں اب بھی پاکستان کی ضرورت ہے اس سلسلہ میں ہمارے دفتر خارجہ کو پہلے سے زیادہ متحرک ہونا ہوگا اور امریکہ کو یہ باور کرانا ہوگا کہ افغان امن عمل میں پاکستان کی تاریخی کاوشوں کو سامنے رکھنا ہوگا۔ امریکہ کو بھی اب احساس ہوچکا ہے کہ پاکستان کے کردار کے بغیر وہ باعزت طریقہ سے انغانستان سے نہیں نکل سکتا۔