ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نامی بین الاقوامی ادارے نے چیئرمین نیب جسٹس (ر)جاوید اقبال کی قیادت میںقومی احتساب بیورو کی انسداد بدعنوانی کے حوالے سے کامیابیوں کو سراہا ہے۔کراچی ،برلن اورجرمنی سے بیک وقت جاری ہونے والی رپورٹ میں ٹرانسپرنسی کا کہنا ہے کہ نیب نے گزشتہ دو سالوں میں 363ارب روپے وصول کر کے قومی خزانے میں جمع کرائے ۔جسٹس (ر)جاوید اقبال کی قیادت میں نیب ملک سے بدعنوانی کے خاتمے اور بڑی مچھلیوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے پر بھرپور یقین رکھتا ہے نیب نے اپنے قیام سے اب تک بالواسطہ اور بلاواسطہ طورپر 714ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرائے ہیں جو انسداد بدعنوانی کے دیگر اداروں کے مقابلے میں قابل تعریف کارکردگی ہے۔ نیب کے مقدمات میں سزا کی شرح 68.8 ہے۔دوسری جانب ٹرانسپیرنسی نے اپنی الگ رپورٹ میں پاکستان کو کرپشن کے لحاظ سے دنیا کے180 ممالک میں 124ویں درجے پردکھایاہے۔پاکستان سی پی آئی رینکنگ میں 120ویں سے چار درجے اوپر گیا ہے۔یہ واضح نہیں کہ نمبروں کے لحاظ سے اوپر جانے کا مطلب ترقی ہے یا تنزلی۔ تاہم اطمینان کی بات یہ ہے کہ ہمارا دیرینہ حریف ملک بھارت بھی کرپشن میں ہم سے پیچھے نہیں ہے۔ بھارت، ایران اور نیپال کا اسکور ایک درجے جبکہ ملائیشیا کا 2 درجے کم دکھایاگیا ہے افغانستان کا اسکور 3 درجے اور ترکی کا ایک درجہ بہتر ہوا۔عالمی ادارے کے مطابق مسلسل کرپشن صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو نقصان پہنچارہی ہے اور جمہوریت کی گراوٹ میں کردار ادا کررہی ہے۔کرپشن سے پاک ممالک کی فہرست میں نیوزی لینڈ اور ڈنمارک 88 پوائنٹس کے ساتھ سرِ فہرست ہیں جبکہ شام کے 14 پوائنٹس، صومالیہ کے 12 اور جنوبی سوڈان کے بھی 22 پوائنٹس ہیں۔ مسلسل گراوٹ کے رجحان کے ساتھ امریکاکے 67 پوائنٹس ہیں ۔ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ پر پاکستان کی حزب اختلاف اور حزب اقتدار دونوں نے مٹھائیاں بانٹی اور خوشیاں منائی ہیں۔اپوزیشن نے تو معاملہ قومی اسمبلی میں بھی اٹھانے کا اعلان کیا ہے۔ٹرانسپیرنسی کی یہ رپورٹ پہلی بار منظر عام پر نہیں آئی۔گذشتہ پندرہ بیس سالوں سے وہ پراسرار اعدادوشمار کے ذریعے ہمیں بدعنوان ٹھہراتے رہے ہیںان کی رپورٹ کو لے کر حکومت اور اپوزیشن والے ایک دوسرے کو لتاڑتے رہے ہیں۔پیپلز پارٹی کے دور میں جب پاکستان کو کرپشن میں نمبرون قرار دیا گیا تو اپوزیشن نے آسمان سر پر اٹھادیا تھا۔ جب مسلم لیگ کے دور میں یہی رپورٹ آئی تو کہاگیا کہ ٹرانسپیرنسی کوئی معتبر ادارہ نہیں ہے اس کی رپورٹ بھی جعلی ہے اس کو لے کر قوم کو پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ہمارے ملک میں اللہ کے فضل و کرم سے خیر خیریت ہے۔چونکہ دور کے ڈھول ہمیں بہت سہانے لگتے ہیں اس لئے یورپ کے کسی فلیٹ میں قائم ادارے کی رپورٹ کو ہم حرف آخر مانتے ہیں ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ کو اس لحاظ سے بھی قوی نہیں سمجھا جاتا کہ ان لوگوں نے جن باتوں کو کرپشن کے زمرے میں شمار کیا ہے ان میں سے بہت سی باتوں کو ہم کرپشن نہیں سمجھتے بلکہ وہ ہماری روایات کا حصہ بن چکے ہیں اورانہیں نذرانہ، شکرانہ یا محنتانہ کا نام دیا گیا ہے ۔رپورٹ پر یہ بھی اعتراض کیاجاسکتا ہے کہ رشوت ستانی پر پاکستان میں صحت کی دیکھ بھال کے شعبے کو خطرے کی زد میں دکھایاگیا ہے۔ حالانکہ شعبہ صحت سے کہیں زیادہ دوسرے سرکاری اداروں میں خردبرد، بے قاعدگیاں اور مالی بدعنوانیاں کی جاتی ہیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ٹرانسپیرنسی کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد کرپشن میں ملوث لوگ اپنے کرتوتوں سے توبہ کریں گے؟کہ ان کی وجہ سے ملک اور قوم کی بدنامی ہورہی ہے۔ ملک و قوم، اپنے پیشے ، باپ دادا کا نام بدنام ہونے اور اپنی عاقبت خراب ہونے کا انسان سوچے تو کرپشن ہی نہ کرے۔پاکستانی بھی آخر انسان ہیں اور انسان غلطی کا پتلا ہے۔ اگر کرپشن کرتے، رشوت لیتے، کسی کا حق مارتے ہیں تو یہ ہمارا ذاتی عمل ہے جن میں مداخلت دخل در معقولات کے زمرے میں آتا ہے۔ بعید نہیں کہ سارے کرپٹ لوگ مل کر ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ دائر کریں۔