امتحانی رعایت کی ضرورت۔۔۔

کورونا وائرس نے ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ ملک کے تمام شعبوں کو بری طرح متاثر کیا ہے اس موذی وباءنے سب سے زیادہ تعلیمی شعبہ کو نقصان پہنچا یا ہے ‘قوموں کے عروج میں شعبہ تعلیم کا بڑا حصہ ہوتا ہے ‘تعلیم وتربیت کے بغیر نہ تو قومیں بنتی ہیں اور نہ ہی ترقی کرسکتی ہیں شعبہ تعلیم کو سب شعبوں پر فوقیت حاصل ہے اور حکومت کو اس پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز کرنی چاہئے ‘تعلیم کے ساتھ ساتھ حکومت کو شعبہ صحت پر بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے ، اگر یہ کہا جائے کہ یہ دونوں شعبے لازم وملزم ہیں تو بے جا نہ ہوگا صحت مند تعلیم یافتہ قومیں ترقی کی بام عروج پر پہنچتی ہیں بد قسمتی سے کورونا وباءنے ہمارا تعلیمی سفر بے حد متاثر کردیا ہے اور آٹھ دس مہینوں کی سرکاری ونجی تعلیمی اداروں کی بندش نے ہمارے طلباءوطالبات کا تعلیمی مستقبل مخدوش کردیا ہے ‘سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کی بندش کا فیصلہ وفاقی وصوبائی حکومتوں نے طلباءوطالبات کی جانوں کے تحفظ کے طور پر کیا تھا اگر حکومت یہ فیصلہ نہ کرتی تو لامحالہ طلباءوطالبات کے ساتھ ساتھ اساتذہ اورخود والدین کی زندگیوں کو خطرہ تھا اس لئے اس پر کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا اور اس فیصلہ کو قبول کیا ۔ وفاقی حکومت کی طرف سے جاری احکامات کے مطابق 18 جنوری سے نویں تا بارہویں جماعت تک کے کلاسوں کا باقاعدہ آغازپہلے ہی ہوچکاہے اور آج صوبہ کے بیشتر شہروں میں پہلی جماعت تا آٹھویں جماعت کے طلباءوطالبات کے سکولز کھول دئیے گئے ہیں ‘وفاقی حکومت نے گزشتہ سال مارچ میں بغیر امتحانات اگلی جماعت میں طلباءوطالبات کو پروموشن دینے کا فیصلہ دیا تھا اس فیصلہ سے دسویں جماعت سے اوپر کے طلباءطالبات مستفید ہوئے اب مارچ 2020 ءسے آن لائن کلاسز بلا تعطل جاری ر ہیں تاہم یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ کئی طلباءوطالبات کے پاس آن لائن کلاسز کی سہولت نہیں ہے جس سے ان کا تعلیمی سلسلہ ایک طرح منقطع رہاہے اور ان کا تعلیمی نقصان ہواہے ، اکتوبر میں سکولوں کے کھلنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ پہلی تا دسویں جماعت کے طلباءوطالبات خاص طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور معیار تعلیم اور بچوں کی تعلیم سے دلچسپی حد سے زیادہ متاثر ہوئی ساتھ ہی گزشتہ سال مارچ سے جنوری 2021ءتک مسلسل اور بلا ناغہ آن لائن کلاسوں نے والدین کے لئے بہت سی مشکلات پیدا کردیں ان کی معمولات زندگی میں خاصا خلل پڑا افسوس اس بات کا ہے کہ اس تمام عرصہ کے دوران زیادہ تر نجی سکولز باقاعدگی سے ماہانا فیسیں بھی وصول کرتے رہے اور والدین فیس ادائیگی پر مجبور تھے کورونا کی دوسری لہر پہلی لہرسے زیادہ سخت تھی اس لئے مجبوراً حکومت کو قوم کے معماروں کی صحت کو مد نظر رکھتے ہوئے دوبارہ تعلیمی ادارے بند کرنا پڑے اس کے ساتھ ہی حکومت نے اعلان کیا کہ بغیر امتحان کوئی پروموشن نہیں ہوگی بے شک حکومت کا یہ ایک احسن فیصلہ تھا لیکن اب جبکہ دوبارہ تعلیمی سرگرمیاں شروع ہونے کو ہیں اور تعلیمی اداروں نے امتحانات کی تیاریاں شروع کردی ہیں تو کیا ایسے میں گزشتہ ایک سال کے تعلیمی معیار کو مد نظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کو سکولز کے طلباءوطالبات سے مکمل نصاب کا امتحان لینا جائز ہوگا ؟ خاص طور پر بالائی سردعلاقوں میں سالانہ امتحانات کی تیاریاں تو کی جارہی ہیں لیکن فائنل ٹرم کے نصاب کو بغیر کم کئے امتحانات لئے جائیں گے جوکہ طلباءوطالبات کےلئے ایک کٹھن مرحلہ ہوگا ، بے شک امتحانات نہایت ضروری ہیں تاہم موجودہ صورت میں مکمل نصاب کو امتحانات میں شامل کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ معصوم بچوں پر بے جا تعلیمی بوجھ ڈالا جارہا ہے جبکہ حقیقی صورت حال یہ ہے کہ طلباءوطالبات پہلے سے ہی ذہنی اذیت کا شکار ہیں اور مکمل نصاب پر مبنی امتحان ان کی ذہنی اذیت میں مزید اضافہ کا سبب بنیں گے طلباءوطالبات پر اتنا تعلیمی بوجھ ڈالا جائے جو یہ با آسانی برداشت کر سکیں ۔ تعلیمی اداروں نے اپنی من مانی شروع کی ہے ان کا مقصد روپیہ ،پیسہ حاصل کرنا ہے جبکہ ان کی اس لالچ سے طلباءو طالبات کا تعلیمی مستقبل داﺅ پر لگ سکتا ہے اور ان کا تعلیم کے حصول سے دل اچاٹ ہوسکتا ہے وفاقی وصوبائی حکومتوں کو اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے ساتھ ہی اس بار میدانی علاقوں میں نہم ودہم کے بورڈ امتحانات تین ماہ کی تاخیر سے لئے جائیں گے یوں تمام نجی سکول اب والدین سے تین ماہ کی اضافی فیسیں وصو ل کرنے کے لئے بھی تیار ہیں اس ضمن میں ضروری ہے کہ سرکاری اور نجی تعلیمی اداروں کو ایک سرکلر کے ذریعے پابند کیا جائے کہ مکمل نصاب کی بجائے مختصر نصاب کے ذریعے امتحانات لئے جائیں اور امتحانات میں طلباءوطالبات کے ساتھ خصوصی رعایت کی جائے اسی طرح تین ماہ کی اضافی فیس کی وصولی بھی روک د ی جائے ایک طویل عرصہ سے تعلیم سے محروم بچے اس حوالہ سے یہ حق رکھتے ہیں کہ ان کے تعلیمی مستقبل کو ضائع ہونے سے بچایا جائے تاکہ یہ دل جمعی کے ساتھ اپنا تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکیں اور یہ بددل نہ ہوجائیں۔ یہی بچے ہمارا مستقبل ہیں اور ہمارا اثاثہ ہیں۔ ان کی صحیح طریقہ سے دیکھ بھال ہم سب کی ذمہ داری ہے۔